نئی دہلی کے کوڑے کرکٹ میں روزی کی تلاش
23 نومبر 2011چالیس سالہ دُرگا کا کہنا تھا کہ نئی دہلی کے سب سے بڑے اور پرانے ملبے کے ڈھیر پر ان کے علاوہ متعدد کتے، بلیاں،گائیں اور بے شمار کوئے بھی موجود رہتے ہیں ۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ماضی میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے انہیں کوڑا چننے کا کام کرنا پڑے گا۔ نئی دہلی میں فن تعمیر کے شاہکار آکشردھم نامی مندر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع غازی پور کے اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اور بھی بہت سے افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
دُرگا اس کا شوہر سوداگر اور ان کے چار بچے بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جو اس ڈھیر سے پلاسٹک ، دھاتیں اوردیگر اشیاء چنتے ہیں۔ ان اشیاء کو دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت کے مختلف گھروں سے جمع کیے گئے کوڑے کرکٹ کوٹھکانہ لگانے کا ایک آخری مقام یہی ڈھیر ہیں۔ نئی دہلی میں اس وقت تین ایسے ملبے کے ڈھیر ہیں، جہاں روزانہ 6000 ٹن کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ ان ڈھیروں سے زہریلی گیس میتھین کے اخراج کے ساتھ ساتھ ایک سیاہ زہریلا سیال مادہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملبے کےان ڈھیروں کے نزدیکی علاقوں میں کینسر، بچوں میں پیدائشی نقائص اور دمے کے امراض لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔
دُرگا ہرصبح پیدل چل کر اس ملبے کے ڈھیر کی طرف جاتی ہیں اور شام تک وہ اسی جگہ پر رہتی ہیں۔ ان کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر نو برس ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر پر کام کرتا ہے۔ کئی گھنٹوں کی کمرتوڑ محنت کے بعد دُرگا کے خاندان کوایک ہفتے میں 1000 بھارتی روپے ملتے ہیں، جو زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء پر صرف ہو جاتے ہیں۔ درگا اس آمدنی کو انتہائی قلیل قرار دیتی ہیں اورکہتی ہیں کہ اتنی کم آمدن سے وہ اپنے بچوں کے سکول کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔
نئی دہلی کی شہری انتظامیہ فُضلے کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے ایک پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ فلاحی ادارے چنتن کے مطابق اگر اس پلانٹ کے فعال ہونے کے بعد کوڑے کرکٹ کی مقدار میں 10فیصد بھی کمی آئی تودُرگا اور اس جیسے دیگر خاندانوں کی مشقت میں مزید کئی گھنٹوں کا اضافہ ہو جائے گا۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: شادی خان سیف