کيا جرمن پوليس نسل پرست ہے؟
8 جون 2020نسل پرستانہ تشدد کا الزام نیا نہیں۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران جرمنی میں مختلف رنگ و نسل کے کئی افراد پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں یا پولیس تحویل میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے مشہور کیس 2005 ء میں جرمن شہر ڈساؤ میں پیش آیا تھا۔ تب اوری جالوہ نامی سرا لیون سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ کے متلاشی فرد کی جھلسی ہوئی لاش پولیس کی تحویل میں ملی تھی۔
اس کے علاوہ بھی کئی واقعات قابل ذکر ہیں۔ کیمرون سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی اچیڈی جان، جن کو2010 ء میں ہیمبرگ میں پولیس کی تحویل میں زبردستی قہ آور دوا پلائی گئی جس سبب اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ یا 2016 ء کا وہ واقعہ بھی نہیں بھلایا جا سکتا، جس میں عراقی مہاجر حسام حسین کو ایک پناہ گزین کیمپ کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
روز مرہ کا تجربہ
مذکورہ واقعات کو گھناؤنے اسکینڈل کے زمرے میں ڈال کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عوام میں نسل پرستی کے خلاف جذبات بھڑکانے کا سبب بنے۔ تاہم گہری رنگت والے افراد آئے دن اپنی روز مرہ زندگی میں بد ترین نسل پرستانہ رویوں کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اکثر اوقات يہ محسوس نہیں ہوتا کہ پولیس ان سیاہ فام افراد کو بھی تحفظ فراہم کرنے کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ عموماً ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔ سیاہ فام افراد کا تعاقب کیا جاتا ہے اور انہيں اکثر شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جرمنی میں قائم افریقی برادری کے نیٹ ورک 'دی افریقن نیٹ ورک آف جرمنی‘ TANG کی روح رواں سیلوی ننچا جرمنی کی کرسچین ڈیموکریٹک سیاستدان ہیں اور شہر فرائی برگ کی پہلی افریقی جرمن سٹی کونسلر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں آباد افریقی برادری اب تک خود کو پولیس کے ہاتھوں محفوظ نہیں بلکہ غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم کے اراکین سے 'نسلی پروفائلنگ‘ کی ان گنت کہانیاں سنیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ محض اپنے رنگ روپ اور ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں،'' میرے اپنے کولیگ کے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ وہ ایک ٹرین میں ایک ایسے ڈبے میں سوار تھا جہاں کم از کم 100 مسافر سوار تھے۔ دوران سفر ٹکٹ چک کرنے والا آیا اور سیدھے میرے ساتھی کے سامنے آ کھڑا ہوا، کسی اور سے ٹکٹ کا پوچھے بغیر اُس نے سب سے پہلے میرے ساتھی کی ٹکٹ کا پوچھا۔ یہ آئے دن کا معمول ہے۔‘‘
انفرادی کیسیز یا نظام کا حصہ؟
جرمنی میں پولیس کے امور کی ذمہ دار وفاقی ریاستیں ہیں۔ ہر ریاست کے اپنے اپنے پولیس قوانین ہیں اور اپنے پاس ملازمت کی خدمات اور تربیت کا طریقہ کار ہے۔ کچھ وفاقی ریاستوں میں، خاص طور پر مغربی جرمنی میں، تارکین وطن کے پس منظر والے پولیس افسران کو ملازمت دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
برلن ميں ایوان نمائندگان نے ابھی گزشتہ جمعرات کو ہی امتیازی سلوک کے خلاف ایک قانون منظور کیا ہے۔ یہ قانون برلن میں لوگوں کو حکام اور پولیس کے امتیازی سلوک سے بچانے اور اس طرح کے کیسز ميں برلن انتظامیہ سے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کرنے کا اہل بناتا ہے۔
اس کے برعکس، قدامت پسند سیاستدان اور پولیس یونین کے نمائندوں نے طوفان برپا کر رکھا ہے۔ صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں اس قانون کی وضاحت اس طرح کی جا رہی ہے کہ ایسے پولیس اہلکار جنہوں نے اپنے مشن یا کارروائی کے دوران اس چیز کو ثابت کرنا ہوگا کہ ترک وطن کے پس منظر والے افراد کے خلاف کارروائی کا تعلق ان کے پس منظر سے نہیں ہے۔
ادھر جرمن صوبے باڈن وورٹمبرگ ميں کرسچین ڈیموکریٹک يونين کے ایک مقامی سیاست دان تھامس بلینکے کا کہنا ہے ''نیا قانون پولیس اور پوری عوامی خدمت کو نسل پرستانہ رجحانات کا حامل ہونے کے شبے میں میں ڈال دیتا ہے۔‘‘ بلینکے اس نقطے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں،''جرمنی امریکا نہیں ہے، ہمارے ہاں پولیس فورس کے اندر نسل پرستی کا کوئی مسئلہ نہیں پایا جاتا۔‘‘
پولیس میں پولیس کے خلاف شکایات درج
وزارت داخلہ بھی شکایت درج کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔ لیکن جرمنی میں سیاہ فام باشندوں کے انیشی ایٹیو کے ترجمان طاہر ڈیلہ کا خیال ہے ،''سرکاری وکیل پرائیویٹ افراد سے زیادہ پولیس پر اعتماد کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں قانونی کارروائی کے لیے شکایات کے اندراج کے لیے آزادانہ ڈھانچے کی ضرورت ہے، جہاں ہم مداخلت کر سکتے ہیں۔ جہاں لوگ مداخلت کے ذریعے نسل پرستانہ سلوک کرنے والے کو ذمہ دار ٹھہرا سکیں۔‘‘
سب سے پہلے، نسل پرستانہ حقوق انسانی کے جرائم کے خلاف تحفظ کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ''مجھے پولیس کے خلاف شکایت پولیس محکمے کو ہی درج کرانا ہوں گی ۔‘‘
برلن کا امتیازی سلوک ایکٹ اس فرق کو قطعی طور پر مٹانا چاہتا ہے تاہم طاہر ڈیلہ کا ماننا ہے کہ کسی بڑے مسئلے کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم پولیس ٹریننگ ہے۔
بن نائٹ/ ک م / ع س