کيا پاکستان کے حوالے سے امريکی پاليسی تبديل ہونے والی ہے؟
30 جون 2017مغربی دفاعی اتحاد نيٹو نے اپنے اضافی دستے افغانستان ميں تعينات کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ اس بارے ميں اعلان نيٹو کے سيکرٹری جنرل ينس اشٹولٹن برگ نے گزشتہ روز برسلز ميں اس اتحاد کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر کيا۔ اس موقع پر انہوں نے مزيد کہا کہ افغانستان ميں قيام امن کے ليے مبينہ طور پر پاکستان ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی بھی لازمی ہے۔
علاوہ ازيں امريکا ميں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی پاليسی تبديل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اطلاعات ہيں کہ پاکستان کے خلاف سختياں متعارف کرائی جا سکتی ہيں۔ ليکن جنوبی ايشيائی خطے کے موجودہ حالات اور پاکستان کی طرف سے افغانستان ميں قيام امن کی کوششوں کے تناظر ميں اس ممکنہ امريکی اقدام کے کيا اثرات مرتب ہو سکتے ہيں؟
يہ جاننے کے ليے ڈی ڈبليو نے مائيکل کوگلمين سے بات چيت کی جو امريکی ’ووڈرو ولسن سينٹر ميں جنوبی ايشيائی امور کے ايک ماہر ہيں اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے بارے ميں کافی معلومات رکھتے ہيں۔
ڈی ڈبليو: اس بات کے کتنے امکانات ہيں کہ واشنگٹن حکومت پاکستان کے حوالے سے سخت پاليسی اپنانے والی ہے؟
مائيکل کوگلمين: پاکستان کے حوالے سے امريکی پاليسی ميں سختی متعارف کرائے جانے کے قوی امکانات ہيں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف سخت رويہ رکھتے ہيں اور ان کا ماننا ہے کہ ايسے عناصر کا جڑ سے خاتمہ کيا جانا چاہيے، خواہ وہ جہاں بھی ہوں۔ ايسا لگتا ہے کہ پاکستان کی چند دہشت گردوں کو نشانہ بنانے اور چند کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی مبينہ پاليسی ٹرمپ کو بالکل ہی قبول نہيں ہو گی۔
ڈی ڈبليو: اگر پاکستان کے حوالے سے واشنگٹن کی پاليسی تبديل ہوتی ہے، تو کيا ممکنہ اقدامات اٹھائے جا سکتے ہيں؟
مائيکل کوگلمين: يہ تاحال واضح نہيں۔ تاہم ايسی قياس آرائياں جاری ہيں کہ پاکستان ميں ڈرون حملوں کو توسيع دی جا سکتی ہے اور اسلام آباد کو فراہم کی جانے والی عسکری مالی امداد ميں بھی کمی ممکن ہے۔ واشنگٹن ميں پاکستان کے حوالے سے سخت نظريات کے حامل اہلکاروں کا يہ بھی ماننا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ميں نيٹو اتحاد کے باہر ايک کليدی اتحادی ملک کی حيثيت تلف کر دی جائے۔ چند ايک کا تو يہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو ايک ايسی رياست قرار ديا جائے، جو دہشت گردی کی حمايت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم يہ انتہائی سخت اقدامات اگرچہ انتظاميہ کے اختيارات ميں ضرور ہيں ليکن ميرا نہيں خيال کہ ان پر فوری عمل در آمد ممکن ہے۔ فی الحال فنڈز کی کٹوتی اور بغير پائلٹ والے طياروں کے حملوں کو وسعت دی جا سکتی ہے۔
ڈی ڈبليو: تو کيا ان ممکنہ اقدامات سے واشنگٹن انتظاميہ اور نيٹو اپنے مقاصد حاصل کر سکيں گے؟
مائيکل کوگلمين: يہاں اہم سوال يہی ہے کہ کيا نئی ممکنہ امريکی پاليسی کے نتيجے ميں پاکستان دہشت گردی کے خلاف اقدامات ميں تيزی لائے گا۔ ميں نہيں سمجھتا کہ ايسا ہو گا۔ اس کے رد عمل ميں پاکستانی سکيورٹی اسٹيبلشمنٹ لشکر طيبہ اور حقانی نيٹ ورک جيسی دہشت گرد تنظيموں کے ساتھ اپنے روابط مزيد بڑھا سکتی ہے۔
ڈی ڈبليو: اگر امريکا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ميں نيٹو اتحاد کے باہر ايک کليدی اتحادی ملک کی پاکستان کی حيثيت تلف کر ديتا ہے، تو اس کے کيا اثرات مرتب ہوں گے؟
مائيکل کوگلمين: يہ پاکستانی فوج کے ليے کافی منفی پيش رفت ہو گی۔ اس کا مطلب عسکری امداد اور پاکستان کو اسلحے کی فروخت ميں نماياں کمی ہو گی۔ اگرچہ پاکستان کے ليے سعودی عرب اور چين کے دروازے کھلے ہيں ليکن امريکی امداد پاکستان کے ليے کافی اہميت کی حامل ہے۔ پاکستان کی بطور ايک اتحادی ملک حيثيت ميں تبديلی سکيورٹی اسٹيبلشمنٹ ميں کافی لوگوں کو بہت تنگ کر سکتی ہے۔
ليکن سوال يہ اٹھتا ہے کہ آيا امريکا اپنی پاليسی ميں اتنی بڑی تبديلی لائے گا۔ ميرے خيال ميں فی الحال اور مستقبل قريب ميں بھی ايسا ممکن نہيں۔ افغانستان ميں امريکی دستے موجود ہی نہيں بلکہ ان ميں توسيع بھی کی جا رہی ہے۔ ايسی صورتحال ميں واشنگٹن کو سپلائی روٹس اور ديگر معاملات ميں پاکستان کی مدد درکار ہو گی۔
ڈی ڈبليو: ممکنہ امريکی سختيوں کے نتيجے ميں پاکستان روس اور چين کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا سکتا ہے۔ کيا نيٹو اور امريکا کے ليے يہ موزوں ہو گا؟
مائيکل کوگلمين: يقيناً واشنگٹن کی طرف سے پاليسی کی تبديلی کی صورت ميں پاکستان، چين اور روس کے ساتھ قريبی تعلقات کا خواہاں ہو گا ليکن ہميں اس خطرے کو طول نہيں دينی چاہيے۔ پاکستان ويسے ہی اس جانب بڑھ رہا ہے ليکن يہاں يہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ بيجنگ اور ماسکو کے افغانستان ميں اہداف امريکی حکومت کے اہداف کے قريب تر ہيں، نہ کہ پاکستان کے۔ روس اور چين افغانستان ميں استحکام کے خواہاں ہيں۔ پاکستان کے طالبان کے ساتھ مبينہ روابط ہيں اور امکاناً افغانستان ميں عدم استحکام ممکنہ طور پر پاکستان کے مفاد ميں ہے کيونکہ اس سے وہاں بھارتی اثر و رسوخ متاثر ہوتا ہے۔
ڈی ڈبليو: کيا پاکستان اور امريکا کے تعلقات اب بھی عدم اعتماد يا بد اعتمادی کے شکار ہيں؟
مائيکل کوگلمين: يہ بات اس وقت تو غير واضح ہے ليکن وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے عنقريب سامنے آنے والے تفصيلی جائزے کے بعد واضح ہو جائے گی۔ ميرا ذاتی خيال ہے کہ انتظاميہ کے ارکان اس سلسلے ميں منقسم ہيں، چند لوگ سخت رويے کے حامی ہيں تو چند ايک زيادہ سفارت کاری چاہتے ہيں۔ ديکھنا يہ ہے کہ آخر ميں کس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
ميرا ذاتی خيال ہے کہ حقانی نيٹ ورک کے خلاف کارروائی کے ليے ابتداء ميں پاکستان کے ساتھ سفارت کاری کا راستہ اختيار کيا جائے گا تاہم اگر يہ کارآمد ثابت نہيں ہوتا تو بلوچستان ميں اضافی ڈرون حملے اور عسکری امداد ميں واضح کٹوتياں ديکھی جا سکتی ہيں۔
ڈی ڈبليو: خطے ميں چين اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کے ليے پاکستان امريکا کے ليے کس قدر اہم ہے؟
مائيکل کوگلمين: پاکستان اپنی جغرافيہ اور جيو پوليٹيکل عناصر کے سبب انتہائی اہم ملک ہے، اس ميں کسی شک کی گنجائش نہيں۔ امريکا افغانستان ميں اپنی طويل ترين جنگ لڑ رہا ہے اور اس ملک کی سرحديں پاکستان سے ملتی ہيں، تو پاکستان کی اہميت کو نظر انداز کيا ہی نہيں جا سکتا۔ يہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کے چين کے ساتھ اچھے روابط اور روس کی طرف جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ يہ بھی اس ملک کو کافی اہم بنا ديتے ہيں۔