کیا آئی سی جے جاکر بھارت کشمیر کے معاملے میں خود پھنس گیا؟
23 مئی 2017کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے پر بھارت میں منائی جانے والی خوشیاں اب سرد پڑتی دکھائی دے رہی ہیں اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے کشمیر کا معاملہ آئی سی جے میں لے جانے کے حوالے سے بیان کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر کے بھارت نے کوئی اسٹریٹیجک غلطی تو نہیں کی ہے؟
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے تو اپنے فیس بک پر انتہائی سخت لہجے میں لکھا ہے، ’’ہم پاکستان کے جھانسے میں پھنس گئے اور اس(یادیوکے) معاملے نے دیگر معاملات کو کھولنے کا موقع دے دیا ہے ۔ انہوں نے مزید لکھا ہے، ’’پاکستان اب بہت خوش ہوگا کہ ہم ایک شخص کے لیے بین الاقوامی عدالت میں چلے گئے۔ اب وہ ہرطرح کے معاملات کو اور خاص طور پر کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی فورم پر اٹھا سکتا ہے، جس کی ہم مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔ عالمی عدالت جاکر ہم نے شاید پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔‘‘
پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیئرمین جسٹس کاٹجو نے مزید لکھا ہے، ’’اگر پاکستان کشمیر کے معاملے کو عالمی عدالت میں لے جاتا ہے تو بھارت اعتراض نہیں کرسکے گا اور یہ یقینی ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے آئی سی جے جائے گا۔ اس وقت ہم عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ آپ ایک ساتھ صحیح اور غلط نہیں ہوسکتے۔‘‘
تاہم ایک حلقہ اس خدشے کو بے بنیاد قرار دے رہا ہے۔ اپوزیشن کانگریس کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان پی سی چاکو کا کہنا تھا کہ کلبھوشن اور کشمیر دونوں یکسر مختلف چیزیں ہیں اور ان کے درمیان کسی طرح کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ مسٹر چاکو کے مطابق، ’’آئی سی جے سے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی بات غیر عملی ہے اور پاکستان ایسی غلطی نہیں کرے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کلبھوشن کے معاملے میں بھارت کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا کیوں کہ پاکستان نے انہیں قونصل رسائی کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا ۔ لیکن اگر پاکستان سوچتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو آئی سی جے میں اٹھایا جاسکتا ہے تو یہ اس کی بڑی بھول ہوگی۔‘‘
بھارت کی کانگریس پارٹی کے ہی ایک اور سینیئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایر کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان آپس کے مسائل کو باہم حل کرنے کے لیے شملہ معاہدے سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم آئی سی جے میں کشمیر کے معاملے پر نہیں بلکہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی کے لیے گئے تھے اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ (سرتا ج عزیز) دونوں معاملے میں کیوں موازنہ کررہے ہیں اور کشمیر کے معاملے کو کیوں بین الاقوامی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
اس ماہ کے اوائل میں بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر ’’دہشت گردی‘‘ کا معاملہ ہے اوراس نے کثیر فریقی حل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ باہمی طورپر حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کا مزید کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ واضح رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس ماہ کے اوائل میں بھارت کے دورہ پر آنے سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی کشمیر کے معاملے میں ثالثی کے لیے تیار ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی سی جے میں کشمیر کا معاملہ لے جانے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دفاعی امور کے ماہر پی کے سہگل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اگر پاکستان کشمیر کے مسئلے کو آئی سی جے میں لے جاتا ہے تب بھی بھارت یہ ثابت کردے گا کہ یہ باہمی مسئلہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ ہم نے آئی سی جے جانے سے قبل تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرلیا تھا۔ ہمیں اس بات کا پورا علم ہے کہ پاکستان گڑبڑ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن پاکستان یہ بھول رہا ہے کہ شملہ معاہدہ کو اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور چین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ حتٰی کہ چین نے یہ بھی کہا ہے کہ کشمیر آپسی مسئلہ ہے جسے باہمی طور پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔‘‘