کیا بائیڈن کے دور میں امریکی پالیسیاں تبدیل ہوں گی؟
14 جنوری 2021ڈیموکریٹ لیڈر جوبائیڈن کو اس بار کے صدارتی انتخابات میں لاطینی امریکی باشندوں کی بڑی تعداد نے اپنا ووٹ دیا۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بائیڈن لاطینی امریکیوں اور ان کے آبائی ممالک کے بارے میں کیسے احساسات رکھتے ہیں؟ کیا وہ لاطینی امریکیوں کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مضبوط و مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ، انہیں پوری طرح امریکا کے ساتھ مربوط کر سکتے ہیں؟
امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے ہر تین لاطینی امریکی باشندوں میں سے دو نے جو بائیڈن کو ووٹ دیا۔ لیکن جو بائیڈن سے بڑی توقعات کی صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ باراک اوباما جب صدر منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے نائب 'جو بائیڈن‘ کو لاطینی امریکی امور کی ذمہ داریاں سونپی تھیں اور اب اس بار کے صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہوتے ہی جو بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ لاطینی امریکی پالیسی پر مرکوز رکھیں گے۔ ماہرین ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن سے زیادہ تعاون پر مبنی رویے کی توقعات رکھتے ہیں۔ جو بائیڈن نے پیدائشی طور پر کولمبیائی سیاستداں سباستیان، گُنزالیز کو امریکا کے مغربی نصف حصے کی سلامتی کا مشیر نامزد کر دیا ہے۔ بائیڈن اور ان کے مشیرکو اس خطے کے متعدد مسائل کے حل کے لیے کافی کچھ کرنا ہو گا۔ چند کلیدی مسائل یہ ہیں۔
نقل مکانی پر کنٹرول
ہجرت یقینی طور پر لاطینی امریکا سے متعلق اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں جلد ہی اپنے منصب سے رخصت ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش رہی کہ امریکا کی طرف ہر طرح کی امیگریشن کو ممکنہ طور پر روکا جائے۔ اس کے برعکس جو بائیڈن ان مہاجرین کے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو بہت بچین میں امریکا اس لیے ہجرت کر گئے تھے کہ انہیں امریکی شہریت مل جائے گی۔
امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ میکسیکو کی جنوبی سرحد ہے، جہاں اربوں انسانوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کا خواب صرف مغرب سے جُڑا ہوا ہے۔ ان افراد کو تاہم جو بائیڈن 'ریڈ کارپٹ‘ پر خوش آمدید نہیں کر سکتے۔ نہ ہی انہیں اس امید میں رہنا چاہیے کہ ان کے لیے راتوں رات سرحد کھول دی جائے گی لیکن جو بائیڈن پناہ کی درخواستوں پر تیزی سے عمل درآمد چاہتے ہیں اور امریکا میں پناہ کے متلاشیوں کو ٹرمپ دور سے زیادہ درخواستیں دینے کے مواقع دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی امریکی حکومت کا موٹو ہو گا ''فرار اور ترک وطن کی وجوہات کے خلاف جنگ۔‘‘
جو بائیڈن نے وسطی امریکا میں حکومتوں کے لیے غربت اور تشدد کے خاتمے کے لیے مجموعی طور پر چار ارب ڈالر کی امدادی رقم مختص کی ہے۔ یہ امدادی رقوم تاہم جن کاموں کے لیے مختص کی گئی ہیں انہی پر خرچ ہونی چاہییں اور اس سلسلے میں قانون کی حکمرانی پر سخت نظر رکھی جائے گی۔
میکسیکو کے علاوہ جو بائیڈن کی توجہ گوئٹے مالا، ایل سلواڈور اور ہونڈوراس پر بھی مرکوز ہے۔ ان تینوں ممالک میں حکومتی سطح پر گوناگوں مسائل پائے جاتے ہیں، جن کا تعلق بدعنوانی، آمرانہ طرز حکومت اور منشیات کی اسمگلنگ وغیرہ سے ہے۔
کووڈ انیس کا سدباب
امریکا کو اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کووڈ انیس سے لاحق ہے۔ نہ صرف اس مہلک بیماری بلکہ اس کے خلاف بہت سی حکومتوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے سبب اقتصادیات زمین بوس ہو کر رہ گئی ہیں۔ لاطینی امریکا کے لیے بائیڈن کے دور صدارت میں کوئی بڑا معاشی محرک پیکیج نہیں ہوگا تا ہم ان کی بھرپور طبی امداد کی جائے گی۔ خاص طور سے ویکسین کی تقسیم کی صورت میں۔ ماہرین کے مطابق امریکا اب بھی لاطینی امریکا کو تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جنوبی امریکا میں صحت کا بحران دراصل زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمالی امریکا کی طرف نقل مکانی یا ہجرت کی وجہ بنا ہوا ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات
جو بائیڈن کے لیے چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ قومی سلامتی کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی ذمہ داری وہ سبکدوش ہونے والی ٹرمپ حکومت کی قیادت کی کمزوری پر عائد کرتے ہیں۔ جو بائیڈن جب باراک اوباما کے دور صدارت میں ان کے نائب تھے، تب بھی امریکا چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے کچھ خاص نہیں کر سکا تھا۔
دریں اثناء میکسیکو ہی خطے کا وہ واحد بڑا ملک ہے، جو اب بھی حقیقی معنوں میں امریکا سے جُڑا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر باقی خطوں میں چین اہم ترین اقتصادی پارٹنر ہے۔ کئی دیگر ریاستوں میں سرکاری مالی اعانت کا انحصار بہت زیادہ چین پر ہے۔ مثال کے طور پر ایکواڈور اپنے تیل کا ایک بڑا حصہ چین کو فروخت کرتا ہے۔
کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی
باراک اوباما کے دور میں امریکا کی کیوبا کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کو بہت سے مبصرین ''حد سے زیادہ امید افزا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکا میں کیوبا کے جلاوطنوں کا موجودہ صدارتی انتخابات میں کردار کافی متنازعہ تھا۔ فلوریڈا میں اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا، جنہوں نے اپنی صدارتی مدت کے آخری دنوں میں کیوبا کو 'دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے ممالک‘ کی فہرست میں ڈال دیا۔ یہاں جو بائیڈن کو گو ناگوں مسائل کا سامنا ہو گا۔ اس ریاست میں 2017 ء میں ڈیموکریٹس کی حکومت ختم ہو چُکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن حکومتی دور میں کیوبا کو اس فہرست سے نکالنے کی بجائے وینزویلا کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنے پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔
والٹر ژان )ک م/ ا ا(