1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تحفظِ ماحول اقتصادی ترقی پر دباؤ بڑھا رہا ہے؟

4 جولائی 2021

ایک عام تاثریہ ہے کہ جو ممالک تحفظِ ماحول پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، انہیں معاشی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ماحول دوست پالیسیاں تجارتی فائدے کا باعث بھی ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3vw0Y
Faktencheck Serie Klimamythen | Wirtschaft
تصویر: Marc Löricke/DW

دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کا موضوع سن انیس سو ستر کی دہائی سے زیر بحث آنا شروع ہوا۔ اس وقت سے یہ بحث جاری ہے کہ تحفظِ ماحول نے معاشی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے اور مسابقتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اس کے جواب میں ماحول دوستوں کا موقف ہے کہ تحفظِ ماحول کی پالیسیوں نے تجارت کے مسابقتی عمل کے کئی دروازے کھولے ہیں اور ان کو ان ممالک پر برتری ملی ہے جو ماحول دوست پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اب ایسا بھی سوچا جا رہا ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔

تاریخی عمارات کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے بیکٹیریا

کیا جی ڈی پی مناسب اشاریہ ہے؟

 جی ڈی پی کسی بھی ملک کی ترقی کی پیمائش کا بنیادی پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ معیار کیا ہے جو یہ بتائے کہ پیداوار اور خوشحالی کیسے ماپی جائے۔ جرمن شہر کیل میں واقع انسٹیٹیوٹ برائے ورلڈ اکانومی کے ذیلی ادارے گلوبل کامنز اینڈ کلائمیٹ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر وِلفرائیڈ ریکلز نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جی ڈی پی کو ترقی کا ایک انتہائی مناسب اشاریہ قرار دیا ہے۔

Infografik Schäden BIP Temperaturanstieg EN
درجہ حرارت کے بڑھنے سے گراوٹ کا شکار ہونے والے جی ڈی پی کا ایک گراف

ریکلز نے بھی واضح کیا کہ ماحولیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصان کا احساس عالمی معاشرت کو بھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے ماحولیاتی نقصان کو ممالک کے جی ڈی پی میں براہِ راست شمار نہیں کیا جاتا۔

دوسری جانب نیشنل بیورو برائے اکنامک ریسرچ پیپرز کے مصنفین نے اپنے تجزیوں میں ظاہر کیا کہ سن 2100 تک درجہ حرارت میں 0.04 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافی حقیقت میں عالمی جی ڈی پی میں 7.22 فیصد کی گراوٹ کا باعث بنے گا۔ اس تجزیے میں بیان کیا گیا ہے کہ جو ممالک پیرس کلائمیٹ معاہدے میں درجہ حرارت میں اضافے کو 0.01 ڈگری سینٹی گریڈ ساتھ جوڑیں گے، ان کا جی ڈی پی کا نقصان 1.07 فیصد تک ہو گا۔

تحفظ ماحول کے لیے دنیا اپنی کوششیں بڑھائے، عمران خان

اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول

ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بیس برس قبل شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب ماحول دوستی کی افزائش کے بعد یہ ایک منفعت بخش کاروبار کا روپ دھار گیا ہے۔ فی الوقت سولر انرجی میں نئی پیش رفت اور اختراعات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس پیش رفت نے نوکریوں کے نئے مواقع پیدا کیے، انرجی کے اخراجات کم ہوئے اور ماحول دوست اقتصادیات پھلنے پھولنے لگی۔

BdT | Deutschland | Photovoltaik-Park liefert Strom für die Deutsche Bahn
سولر انرجی میں نئی پیش رفت اور اختراعات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ ایک اہم ٹیکنالوجی بن چکی ہےتصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance

غریب ملکوں کی مجبوری

جرمن دارالحکومت برلن میں قائم جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اکنامک ریسرچ (DIW Berlin) کے شعبے کلائمیٹ پالیسی ڈیپارٹمنٹ کر سربراہ کارسٹن نوئے ہوف کا کہنا ہے کہ سولر انرجی اب ایک ٹیکنالوجی کا روپ دھار چکی ہیں اور کئی اُن ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے  جو ماحول دوست پالیسیوں کو فوقیت بھی نہیں دیتے، ویسے بھی یہ انرجی سستی بھی ہے۔ نوئے ہوف کا مزید کہنا ہے کہ اب دنیا میں توانائی کے مفید ہونے کی سوچ بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

منچھر جھیل کے ماہی گیروں کے کشتی گھر

سب سے زیادہ ماحولياتی خطرات کے شکار شہر: سو ميں سے ننانوے ایشیا میں

ماحول دوستی اور معاشی ترقی کے اشاریے امیر ملکوں کے حوالے سے تو اچھے لگتے ہیں لیکن دوسری جانب اس ساری بحث کا یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ غریب اقوام کو تحفظِ ماحول اور اقتصادی ترقی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی مجبوری کا سامنا ہے۔

رابرٹ مُڈ گے (ع ح / ک م)