کیا ترکی میں سزائے موت پھر سے متعارف کروائی جانے والی ہے؟
10 اگست 2016ترک صدر رجب طیب ایردوآن ترک یا بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ’موت کی سزا کی بحالی‘ کا بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر قوم ایسا چاہتی ہے اور پارلیمان یہ قانون منظور کر لیتی ہے تو ترکی کے صدر کے طور پر وہ سزائے موت کی بحالی کے اس قانون پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔
استنبول میں جرمن ادارے ’ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن‘ کے انچارج کرسٹیان براکل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا: ’’ایردوآن عوامیت پسندی کے ماہر ہیں اور عوام کے مزاج کو خوب سمجھتے ہیں۔‘‘
کرسٹیان براکل کہتے ہیں:’’جب صدر یہ کہتے ہیں کہ سزائے موت کی بحالی قوم کی آواز ہے تو دراصل اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صدر اور اُن کے دیگر ساتھی سیاستدان کون کون سے موضوعات عوام تک لے جانا چاہتے ہیں۔ جب ایسی پالیسی میں سیاستدانوں کی دلچسپی نہیں ہوتی تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسے موضوعات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
استنبول میں ’کونڈا‘ نامی ایک مشہور ادارے کے ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق خاص طور پر قدامت پسند مذہبی حلقے ’اپنے‘ صدر کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کی خاتون ترجمان روینہ شمداسانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ترکی میں نہ صرف 2004ء میں سزائے موت ختم کر دی گئی تھی بلکہ اس سزا پر گزشتہ بتیس برسوں میں کبھی عملدرآمد بھی نہیں کیا گیا اور ایسے میں اس سزا کی بحالی نہ صرف افسوسناک بلکہ ایک پوری قوم کی ترقیٴ معکوس کی بھی علامت ہو گی۔
شمداسانی کے مطابق ابھی ترکی میں اس سزا کی بحالی کے کوئی ٹھوس منصوبے نہیں ہیں اور ویسے بھی ایسے کسی اقدام کی راہ میں بہت سی آئینی اور قانونی دُشواریاں حائل ہیں مثلاً یہ کہ کسی جرم کے لیے وہی سزا دی جا سکتی ہے، جو جرم سر زد ہوتے وقت آئین کی رُو سے دی جا سکتی ہو اور پندرہ جولائی کی بغاوت کے وقت ترک آئین میں موت کی سزا موجود نہیں تھی۔
دیگر ماہرین کے مطابق اس سزا کو پھر سے متعارف کروانے کے لیے پارلیمان میں مطلوبہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہوتی نظر نہیں آتی۔
اِدھر یورپی یونین بھی ایردوآن کے ان منصوبوں کی شدید مذمت کر رہی ہے اور یونین کے موقف کو نظر انداز کرنا ترکی کو بہت مہنگا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق ترکی کو اقتصادی طور پر بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات بھی منقطع ہو سکتے ہیں۔