کیا خواتین فٹبالرز اپنا پیٹ پال سکتی ہیں؟
27 فروری 2019
گلوبل پروفشنل فٹبال پلئیرز سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کو ماضی میں تو فٹبال کے کھیل سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم خواتین نے اس سلسلے میں اپنے حقوق منوانے کی کوششیں جاری رکھیں تب بھی اس میدان میں عورتیں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ۔ وسائل کی کمی اپنی جگہ مگر اہم بات یہ ہےکہ خواتین کو ثقافتی طور پر بھی اس کھیل کے لیے قبول نہیں کیا گیا۔
پہلی عالمی جنگ سے پہلے اور اس کے دوران انگلینڈ میں وومن فٹبال کا کھیل خاصا مقبول تھا۔ اس وقت ڈک، کیر لیڈیز ایف سی نامی خواتین کی فٹبال ٹیم خاصی مشہور تھی۔ اس فٹبال ٹیم کا تعلق انگلینڈ کے شہر پرسٹن سے تھا۔ سن 1917 میں ڈک کیر نامی ایک اسلحہ ساز کمپنی کی خواتین ورکرز کی جانب سے یہ ٹیم بنائی گئی تھی۔ ان میچز سے حاصل کردہ رقم، زخمی سپاہیوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ سن 1920 میں 53 ہزار تماشائیوں نے یہ گیم دیکھا، اور اس کے دوران جمع کیے گئے دس ملین یوروفلاحی کام کے لیے استعمال میں لائے گئے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس شہرت اور ترقی کے باوجود خواتین کی اس گیم پر 1921ء سے لے کر 1971 ء تک پابندی عائد رہی۔تقریباﹰ سو سال سے زائد وقت گزر چکا ہے ۔مگر خواتین فٹبالرز کی امتیازی سلوک، عدم مساوات اور اشرافیہ کھلاڑیوں کے مقابلے میں غیر منصفانہ تنخواہوں کی ادائیگی کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔
پیشہ ورانہ جنگ
لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والی میکرینا سانچیز پہلی خاتون فٹبالر ہیں جو اپنے حق کی خاطر قانونی راستہ اختیار کر چکی ہیں۔ سانچیز نے18 جنوری 2019 ء کو اپنے کلب کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔جس میں انہوں نےکام کی غیر منصفانہ تقسیم اور اپنی شناخت بنانے میں رکاوٹ کا ذمہ دار کلب کو ٹہرایا۔
ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئےچار بار ارجنٹائن کی چیمپئن رہنے والی میکرینا سانچیز نےکہا کہ، ’’یہ یقینا اب تک کی مشکل ترین جنگ ہے۔میرے کلب نے مجھے بیروزگاری میں کبھی کوئی پیسے نہیں دیے۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کے پیسے خود دینا پڑتے ہیں، جیسا کہ کھیل میں لگنے والے زخم،دوران کھیل استعمال ہونے والا سامان، ریفری حتیٰ کےٹریننگ فیلڈ کے پیسے بھی کھلاڑی کو دینے پڑتے ہیں۔‘‘
میکرینا سانچیز نے اپنی گفتگو میں یہ پیغام دیا کہ،دنیا بھر میں خواتین فٹبالرز کے حقوق کے لیے کام کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔