1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا دو مَردوں کے درمیان تولیدی عمل ممکن ہے؟

16 مارچ 2023

ایک نئی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم جنس چوہوں سے بھی تولیدی عمل ممکن ہے۔ اس سے بعید ہی سہی، تاہم اس امکان میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ اس تکنیک کا استعمال انسانوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Oko5
Jake Meets His Mice
تصویر: Jeff Roberson/AP/picture alliance

جاپانی سائنسدانوں نے نر چوہوں کے خلیات سے بیضے تیار کر کے چوہوں کے صحت مند بچے پیدا کیے ہیں۔ سائنس کے معروف جریدے نیچر نے بدھ کے روز کیوشو یونیورسٹی اور اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر کاتسوہیکو ہیاشی کی سربراہی میں اس نئی تحقیق کی تفصیلات شائع کیں۔

انسانی بیضہ عطیہ کرنے کو جائر قرار دیا جائے، جرمن ماہرین

اس نئی تحقیق کے ساتھ ہی اس حوالے سے جو تبصرہ شائع ہوا ہے اس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اسٹیم سیل اور تولیدی امور کے ماہر ڈیانا لیرڈ اور ان کے ساتھی جوناتھن بائرل نے کہا ہے کہ اس دریافت نے، ''تولیدی بائیولوجی اور فرٹیلیٹی کی تحقیق میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔''

کیا سائنس مردوں کو زندہ کر سکتی ہے؟

ان کے مطابق اس نئی دریافت سے مستقبل میں ایک ہی نر سے خطرے سے دوچار یا معدوم ہونے والے جانوروں کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

ناسا انسانی اسپرم خلا میں چھوڑے گا

انہوں نے لکھا، ''یہ لوگوں کے لیے، جیسے کہ مرد ہم جنس جوڑوں، کو حیاتیاتی بچے پیدا کرنے کے لیے ایک ٹیمپلیٹ بھی فراہم کر سکتا ہے۔ اس سے انڈے عطیہ کرنے والوں کے اخلاقی اور قانونی مسائل پر بھی قابو پا یا جا سکتا ہے۔''

جوان خون، پٹھوں اور اعصاب کو دوبارہ جوان کر دیتا ہے، نئی تحقیق

تاہم محقق کاتسوہیکو ہیاشی نے خود خبردار کیا ہے کہ یہ تحقیق ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ گزشتہ ہفتے لندن میں کرک انسٹیٹیوٹ میں انسانی جین کی ایڈیٹنگ کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ''چوہوں اور انسانوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔''

موبائل فون مردوں کے مادہٴ تولید کے لیے نقصان دہ، سائنسدان

Dicke und dünne Mäuse
جاپانی سائنس دانوں نے جو طریقہ استعمال کیا، اس سے تحقیق کے دوران چوہے کے بچوں کی نہ صرف نشو و نما ہوتی دکھائی بلکہ معمول کے مطابق وہ خود بھی والدین بننے کے قابل تھےتصویر: AP

نر چوہوں کی دم سے حاصل شدہ ا سٹیم سیل

سن 2018 میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق کی بنیاد پر کہا گیا تھا کہ دو مادہ چوہوں سے چوہے پیدا کیے گئے تھے لیکن جب انہوں نے نر چوہوں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ان کے بچے صرف چند دن ہی زندہ رہ سکے۔

حاملہ خواتین ’پین کِلر‘ دوائیں زیادہ استعمال نہ کریں، جائزہ

تاہم جاپانی سائنس دانوں نے ایک مختلف طریقہ استعمال کیا اور ان کی تحقیق کے دوران چوہے کے بچوں کی نہ صرف نشو و نما ہوتی دکھائی بلکہ معمول کے مطابق وہ خود بھی والدین بننے کے قابل تھے۔

اس نئی تکنیک میں سب سے پہلے نر چوہوں کی دم سے جلد کا ایک خلیہ حاصل کیا گیا اور پھر اسے اسٹیم سیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک ایسے عمل کے ذریعے، جس میں دوا کی مدد سے ان کی نشوونما اور ان کا علاج شامل تھا، انہوں نے نر چوہے کے اسٹیم سیلز کو مادہ چوہے کی خلیات میں تبدیل کیا اور اس سے فعال انڈے کے خلیات تیار کیے۔

پھر انہوں نے ان انڈوں کو ضروری کھاد فراہم کی اور جنین کو مادہ چوہوں میں پیوند کاری کی۔ لیرڈ نے اس عمل کو ''سٹیم سیل اور تولیدی حیاتیات دونوں میں ہی ایک اہم قدم کے طور پر بیان کیا ہے۔

انسانوں پر یہ تجربہ ابھی بہت دور ہے

یہ نئی تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور طریقہ کار اب بھی انتہائی غیر موثر ہے۔ سروگیٹ ماؤں کو منتقل کیے گئے 630 جنین میں سے صرف سات نے ہی زندہ چوہے پیدا کیے۔

محققین ابھی اس بات کا تعین نہیں کر سکے ہیں کہ سروگیٹ چوہوں میں رکھے گئے جنین کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہی کیوں زندہ رہا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ جاننا ابھی بہت جلد بازی ہو گی کہ آیا یہی پروٹوکول انسانی اسٹیم سیلز میں کام کرے گا یا نہیں۔

 لیرڈ نے اپنے تبصرے میں یہ بھی کہا کہ سائنسدانوں کو ایسی تبدیلیوں اور غلطیوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، جو انڈے بنانے کے لیے اسٹیم سیلز کا استعمال کرنے سے پہلے کلچر ڈش میں متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے)