کیا روس سے خوف زدہ سویڈن ترکی کو رعایت دے گا؟
16 جولائی 2022فریقین کے درمیان اس موضوع پر جون میں مذاکرات ہوئے، تاکہ باہمی اختلافات کو کسی طرح کم کیا جا سکے۔ ترکی سے فرار ہو کر سویڈن پہنچنے والے بُلنت کنیز نہیں یہی سوچا تھا کہ وہ سویڈن پہنچ جائیں گے تو ان کی پریشانی ختم ہو جائے گی۔ 'ٹوڈیز زمان‘ نامی ترک اخبار کے سابقہ مدیر کو صدر ایردوآن پر تنقید کی وجہ سے شدید تکالیف سے گزرنا پڑا۔ سن 2016 میں ناکام بغاوت کے بعد جب ایردوآن مخالف افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو وہ ترکی سے فرار ہو گئے۔
ترکی رضامند، فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا راستہ ہموار
نیٹو میں شمولیت: سویڈن ترکی کے سکیورٹی خدشات دور کرنے کے لیے تیار
کنیز نے اسٹاک ہولم میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''میں نے سکون کا گہرا سانس لیا تھا کہ میں خطرہ پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘مگر سکون کا یہ سانس عارضی تھا۔
خطرہ جلاوطنی میں بھی تعاقب کر رہا ہے
فروری میں سویڈش حکام نے کنیز کو مطلع کیا کہ ترک حکومت ان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے اور انہیں عدالت میں ثابت کرنا ہے کہ انہیں سویڈن میں پناہ کیوں چاہیے۔ کنیز کے مطابق اس کا مقدمہ اس وقت سویڈش سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
اٹھارہ مئی کو ترک حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ سویڈن اور فن لینڈ کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کو بلاک کر دے گا تاوقتیکہ یہ دنوں ممالک ترکی کے چند مطالبات تسلیم کریں، جن میں مختلف افراد کی حوالگی بھی شامل ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ایردوآن اپنے ان ناقدین کو 'دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں۔ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے اور نیٹو کے ضوابط کے مطابق کسی نئے ملک کی رکنیت کے لیے نیٹو کی تمام رکن ریاستوں کی جانب سے اس کی حمایت ضروری ہے۔
انقرہ میں ترک اور فنش حکام کی ملاقات
مئی ہی میں ترک اور فن لینڈ کے حکام نے انقرہ میں ملاقات کی، جس میں فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے موضوع پر بات ہوئی۔ جون میں ترکی کی جانب سے ان دونوں ممالک کو ایک سہ فریقی یادداشت پر دستخطوں کے بعد مغربی دفاعی اتحاد میں شمولیت کے عمل کے آغاز کی اجازت دی گئی تھی جب کہ ایردوآن کا کہنا تھا کہ سویڈن نے 73 افراد کی ترکی کو حوالگی کا وعدہ کیا ہے جب کہ دوسری صورت میں نیٹو میں شمولیت کے دروازے ان ممالک پر پھر سے بند ہو جائیں گے۔
غلط فہمیوں پر مبنی یادداشت
اس میمو میں گو کہ ایسا کوئی وعدہ درج نہیں ہے جب کہ سویڈش حکومت بھی ایسی کسی بھی چیز کو ماننے سے انکار ہے۔ فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ ترک مطالبات کے تحت سویڈش حکام سے کن افراد کی حوالگی کا کہا گیا ہے۔
بُلنت کنیز کو تاہم یقین ہے کہ ایسی جو بھی 'فہرست‘ ہے، اس میں اس کا نام ضرور ہے۔ انقرہ کی جانب سے 'مبینہ دہشت گردوں‘ کی فہرست میں کنیز کا نام بھی موجود ہے۔ کنیز کے مطابق ایردوآن حکومت ان پر کئی طرح کے الزامات عائد کرتی ہے۔ ترک حکومت ان پر فتح اللہ گولن کے حامی ہونے کا الزام بھی عائد کرتی ہے، جب کہ وہ اس الزام کو بھی رد کرتے ہیں۔
ع ت/ ک م (نیوز ایجنسیاں)