کیا سیاسی رخ، جی ایچ کیو کی خواہشات کے خلاف ہے؟
2 اپریل 2024اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے آئی ایس آئی کے خلاف خط، ملک بھر کی بار کونسلز کے مطالبات اور جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی طرف سے کمیشن کی صدارت سے معذرت بھی اس بدلتی ہوئی ہوا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزائیں معطل، لیکن رہائی نہیں ملے گی
’چیف جسٹس آف پاکستان نے سخت موقف نہیں اپنایا، تو عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن جائے گی‘
’معاملات خواہشات کے عین مطابق نہیں‘
بدلتی ہوئی اس سیاسی ہوا کے اشارے کئی حلقوں کو نظر آرہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہوا ہمیشہ جی ایچ کیو کی موافقت میں ہی چلے۔
رکن قومی اسمبلی پھلین بلوچ کا کہنا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے سیاسی ہوا کا رخ اب جی ایچ کیو کی خواہش کے مطابق نہیں ہے: ''جس طرح جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کی صدارت کرنے سے معذرت کی ہے اور جس انداز میں بار کونسلز نے خط میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے حوالے سے دباؤ ڈالا ہے، اس سے یہ لگ رہا ہے معاملات طاقتور حلقوں کی خواہش کے مطابق نہیں چل رہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کا بھی ایسا ہی خیال ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان کی سزا کی معطلی اور ہائی کورٹ کی ججوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط کے بعد عوامی رد عمل آیا ہے۔ اس سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ چیزیں ملک چلانے والوں کے ہاتھوں میں اس طرح نہیں ہیں جس طرح مقتدر حلقے چاہتے تھے۔‘‘
’گرفت توڑنا آسان نہیں‘
تاہم کچھ دوسرے تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کی سیاسی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اس کو توڑنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ ملک کی ڈور ابھی بھی مقتدر حلقوں کے پاس ہی ہے: ''عمران خان کو جو ریلیف ملا ہے، وہ بڑا نہیں ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر دھڑا دھڑ مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور ان کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے۔‘‘
فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق جی ایچ کیو جب اور جس کو چاہتا ہے، ریلیف دلوادیتا ہے: ''وہ جب چاہیں نواز شریف کو ریلیف دلوا دیتے ہیں، اور جب چاہیں مقدمات کسی اور کے خلاف بنوا دیتے ہیں۔ آج بھی انہی کے ہاتھ میں اصل طاقت ہے۔‘‘
’معاملہ کاکڑ کی چیئرمین شپ کا ہے‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی انوار الحق کاکڑ کو چیئرمین سینیٹ بنانے پر راضی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسی لیے اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ تاثر دے رہی ہے کہ اگر کاکڑ کی حمایت نہیں کی گئی، تو خان کو رعایت مل سکتی ہے۔‘‘
توصیف احمد خان کے مطابق اس طرح جی ایچ کیو سیاست دانوں کو آپس میں ہی لڑا رہا ہے اور اس سے نقصان سیاست دانوں کو ہو رہا ہے۔
عمر ایوب خان قائد حزب اختلاف
دوسری طرفاسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب خان کی بحیثیت قائد حزب اختلاف تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس تقرر اور پاکستان میں اس عہدے کی حیثیت پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔
شعیب شاہین نے اس حوالے سے تصدیق کہ عمر ایوب خان کو قائد حزب اختلاف بنا دیا گیا ہے۔
فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق عمر ایوب عمران خان اور جی ایچ کیو دونوں کے لیے قابل قبول ہیں: ''انہیں اس لیے یہ عہدہ دیا گیا ہے کہ اگر پارٹی کو جی ایچ کیو سے مذاکرات کرنا ہوں، تو وہ اس میں بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘