چینی ہیکرز کا بھارتی پاور گرڈ پر مبینہ سائبر حملہ
7 اپریل 2022سائبر سکیورٹی سے متعلق ایک نجی امریکی ادارے 'ریکارڈیڈ فیوچر' نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس بات کا دعوی کیا گيا ہے کہ حالیہ مہینوں میں خطہ لداخ میں بعض، "چینی حمایت یافتہ ہیکرز" بھارتی پاور گرڈ کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں دعوی کیا گيا ہے کہ ان "ہیکرز کو چینی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے" اور گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران لداخ کے قریب بجلی فراہم کرنے والے بھارتی مراکز کو نشانہ بنایا گيا۔
اطلاعات کے مطابق چینی ہیکرز خطے میں "بنیادی ڈھانچے کے اہم نظام سے متعلق معلومات جمع کرنے کی کوشش" کر رہے تھے۔
معروف امریکی میڈیا ادارے بلومبرگ نے ادارے کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس نوعیت کے یہ حملے "بھارت کے خلاف چینی سائبر جاسوسی کی جنگ کا ایک حصہ ہیں۔"
امریکی سائبر ادارے 'ریکارڈیڈ فیوچر' نے اپنی رپورٹ میں کہا، "حالیہ مہینوں میں، ہم نے کم از کم سات 'انڈین اسٹیٹ لوڈ ڈسپیچ سینٹرز' (ایس ایل ڈی سی) کو نشانہ بنانے والے نیٹ ورک کی مداخلت کا مشاہدہ کیا۔ ان سینٹرز پر متعلقہ ریاستوں میں گرڈ کنٹرول اور بجلی کی ترسیل کے لیے ریئل ٹائم آپریشنز انجام دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔"
اس رپورٹ کے مطابق، "قابل ذکر بات یہ ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے اس ہدف کو لداخ میں متنازعہ بھارت اور چین کے سرحدی علاقے میں مرتکز کیا گیا ہے۔"
انٹیلیجنس فرم کے مطابق، ان حملوں سے چینی ہیکرز خطے میں اہم بنیادی ڈھانچے کے نظام کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ "
گزشتہ 18 مہینوں کے دوران جس طرح بھارت کے ریاستی اور علاقائی لوڈ ڈسپیچ سینٹرز کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چینی ریاست کے زیر اہتمام ایک طویل مدتی اسٹریٹجک ترجیح ہوسکتی ہے۔"
رپورٹ کے مطابق تحقیقات سے پتہ چلا کہ بھارتی لوڈ ڈسپیچ سینٹرز سے ڈیٹا دنیا بھر میں پھیلے چینی ریاست کے زیر اہتمام کمانڈ اینڈ کنٹرول سرورز کو منتقل ہوتا رہا ہے۔
عالمی سطح پر ہائی پروفائل سائبر حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ برس امریکہ کی ایک بڑی گیس پائپ لائن پر رینسم ویئر کے حملے سے مشرقی ساحل پر بسے لاکھوں امریکی متاثر ہوئے تھے۔ آسٹریلیا میں بھی توانائی کے ایک اہم نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گيا تھا جس کے سبب وہ بجلی سے محروم ہونے والا تھا۔
اطلاعات کے مطابق یہ حملے گزشتہ برس اگست سے مارچ کے درمیان ہوئے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی یہ رپورٹ شائع کرنے سے قبل ہی بھارتی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا، تاہم نئی دہلی نے ابھی تک اس بارے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔ تاہم بھارت عموما چین کی جانب اٹھائے گئے اس طرح کے اقدام کے بارے میں کھل کر اپنے رد عمل کا اظہار بہت کم کرتا ہے۔
ایل او سی پر تنازعے کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو سال سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
(ایجنسیاں)