کیا ’وائٹ واش‘ سے کوئی سبق بھی ملا؟
7 جنوری 2017سڈنی ٹیسٹ کے پانچویں اور آخری دن پاکستانی بلے باز چار سو پینسٹھ رنز کے ہدف کے تعاقب میں 244 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ دوسری اننگز میں پاکستان کی طرف سے نمایاں بلے باز وکٹ کیپر سرفراز احمد رہے، جنہوں نے بہّتر رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے اوپنر شرجیل خان نے چالیس رنز بنائے جبکہ مصباح الحق اڑتیس، اسد شفیق تیس اور یونس خان صرف تیرہ رنز کی انفرادی اننگز کھیل سکے۔
2016: پاکستانی کھیلوں کے لیے سخت اتار چڑھاؤ کا سال
مصباح الحق کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ ’میس‘ حاصل
عالمی ٹیسٹ کرکٹ رینکنگ میں پاکستان پہلے نمبر پر
آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 538 رنز اور دوسری اننگز میں دو کھلاڑیوں کے نقصان پر241 رنز بنائے تھے۔ پاکستانی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں تین سو پندرہ جبکہ دوسری اننگز میں 244 اسکور کر سکی۔ اس میچ کا بہترین کھلاڑی آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ وارنر کو قرار دیا گیا، جنہوں نے پہلے دن لنچ سے قبل ہی سنچری اسکور کر کے ایک منفرد کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کپتان جاوید میانداد نے کہا ہے کہ آسٹریلیا میں پاکستان کی یہ شکست ملک میں ڈومیسٹک سطح پر کرکٹ کے غیر معیاری نظام کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ بیالس سالہ کپتان مصباح الحق کا نعم البدل تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مصباح الحق پاکستانی کرکٹ تاریخ کے کامیاب ترین کپتان ثابت ہوئے ہیں، جنہوں نے 53 میچوں میں قیادت کرتے ہوئے چوبیس میں فتح حاصل کی ہے۔ مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے اٹھارہ میچ ہارے جبکہ گیارہ برابر رہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے مصباح الحق پاکستانی کرکٹ ٹیم میں بلے بازی کی سطح پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم آسٹریلیا میں چھ اننگز میں ان کا انفرادی اسکور چار، پانچ، گیارہ، صفر ، اٹھارہ اور اڑتیس رہا۔ اس ناقص کاکردگی پر ناقدین نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب مصباح الحق کو ریٹائرمنٹ لے لینا چاہیے۔
جاوید میانداد نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مصباح الحق کا نعم البدل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرکٹ کا ہمارا ڈومیسٹک نظام کس قدر کمزور ہے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کی جگہ کسی دوسرے کرکٹر کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔
جاوید میانداد کے بقول، ’’اب ہم مصباح کو کرکٹ چھوڑنے کا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا ہم نے اس کا نعم البدل تلاش کر لیا ہے؟ بدقسمتی سے جواب ہے، ’نہیں‘۔ اور اس لیے اب دار و مدار مصباح پر ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس نے مستقبل میں کرکٹ کھیلنا ہے یا نہیں۔‘‘ میانداد کا اصرار ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کامیابی کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری لانا ہو گی۔ دیگر ناقدین کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد اب سبق سیکھ لینا چاہیے۔