1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان امریکا کے ساتھ مزید تعاون کے لیے تیار ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
24 اکتوبر 2017

ڈو مور پالیسی کے ساتھ اسلام آباد میں پہنچنے والے امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقات کی ہے۔ کیا پاکستان مزید تعاون کے لیے تیار ہو چکا ہے؟

https://p.dw.com/p/2mQLY
Pakistan Islamabad US-Außenminister Rex Tillerson | Shahid Khaqan Abbasi, Premierminister
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Brandon

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار ، وزیرِ خارجہ خواجہ آصف ، وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور وزیرِ دفاع خرم دستگیر بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان میں ریکس ٹلرسن کے دیے گئے اس بیان کو انتہائی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے، جو انہوں نے کل بروز پیرکابل میں دیا تھا۔ اس بیان میں میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس مطالبے کا اعادہ کریں گے، جس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف اپنی سر زمین پر کارروائی کرے۔
پاکستان کی ایوان بالا کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے اس بیان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے نا قابلِ قبول اور نا مناسب قرار دیا ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ٹلرسن پاک امریکا تعلقات پر پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد کا مطالعہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹلرسن نے کچھ مطالبات وزیرِ اعظم کو پیش کئے ہیں اور وزیر خارجہ کل ان مطالبات سے ایوان کو آگاہ کریں گے۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے، جب پاکستانی اندورنی طور پر غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے شکا ر ہے اور بیرونی طور پر اسے واشنگٹن کی طرف سے کئی الزامات کا سامنا ہے۔ کچھ دنوں پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکی یرغمالی خاتون، ان کے خاوند اور بچے پانچ برس تک پاکستان میں تھے جب کہ یرغمال خاتون نے کل بروز پیر کو ایک کینیڈین اخبار کو اپنے پہلے انٹرویو میں بتایا کہ ان کی یرغمالی کے آخری سال میں انہیں پاکستان میں رکھا گیا۔
اس صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان میں خیال کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد پر مزید دباو ڈالے گا۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں واشنگٹن اب ماضی کی طرح اسلام آباد پر دباو نہیں ڈال سکتا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ادارہ برائے عالمی امن وسلامتی سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں پاکستان اس وقت کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس دورے کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے گا اور ڈو مور کا بھی مطالبہ کرے گا لیکن پاکستان صرف وہی کرے گا جو اس کے قومی مفادات میں ہوگا۔ ماضی میں پاکستان صرف امریکی امداد پر انحصار کرتا تھا لیکن اب خطیر چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے یہ انحصار کافی حد تک کم ہو سکتا ہے یا کم از کم اب پاکستان کے پاس زیادہ راستے ہیں، تو وہ امریکا کے بے جا مطالبات کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ امریکا پاکستان پر دباو برقرار رکھے گا کیونکہ وہ خطے میں بھارت کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اب بھارت فیکٹر بہت اہم ہوگیا ہے۔‘‘

Pakistan Islamabad US-Außenminister Rex Tillerson |
تصویر: Reuters/A. Qureshi
Pakistan Islamabad US-Außenminister Rex Tillerson
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Brandon

’افغانستان کا مستقبل، اب بھارت کو نظر انداز کرنا مشکل‘
لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں ساری چینی سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کا امریکا پر انحصار برقرار رہے گا۔ ٹلرسن کے دورے کے حوالے سے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملکی معاشی حالت کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ ہمارا کرنٹ خسارہ بڑھا ہوا ہے اور قوی امکان ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے، تو ہم امریکا کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں؟ امریکا کا ان اداروں پر بہت اثر ورسوخ ہے۔‘‘
ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ڈو مور والے امریکی مطالبے کو سنے اور امریکا سے تعاون بھی کرے کیونکہ جہاں تک انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات ہے، یہ صرف امریکی مطالبہ نہیں ہے بلکہ چین بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔
احسن رضا کا کہنا تھا کہ امریکا پر انحصار کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں آج بھی واشنگٹن بیجنگ سے زیادہ طاقت ور ہے،’’کل اگر پاکستان اور بھارت کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو واشنگٹن ہی نئی دہلی پر اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کر سکتا ہے۔ کارگل کے موقع پر بھی امریکا نے ہی پاکستان کو ریسکیو کیا تھا۔ چین کا تو نئی دہلی پر کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے۔ تو ہمیں اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے۔‘‘