کیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟
17 اگست 2017اس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کی جب کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سمیت کئی اہم شخصیات بھی اس اجلاس میں شریک تھیں۔ خارجہ و سلامتی امور کے ماہرین کمیٹی کے اس بیان کو خطے میں امن کے لئے بہت اہم قرار دے رہے ہیں تاہم کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں افغانستان اور خطے میں امن کا حصول اتنا آسان نہیں ہے۔
کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں کچھ بہتری نظر آئی ہے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان کا دورہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی عسکری امداد کو کم کرنے کے باوجود واشنگٹن نے یہ کہا ہے کہ خطے میں امن کے لئے اسلام آباد اور واشنگٹن کا اتحاد اہم ہے۔
دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں چین کی یہ خواہش ہے کہ خطے میں امن و استحکام آئے تاکہ امریکا کا اثرو رسوخ کم کیا جا سکے۔ امن کے لئے کی جانے والی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان پر خلوص انداز میں افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور ہم نے ماضی میں انٹلیجنس شیئرنگ اور سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کے حوالے سے افغانستان کو تجاویز بھی دی تھیں۔ یہ معاہدے کی شکل اختیار کرنے جا رہی تھیں لیکن پھر افغان حکومت نے بھارت کے ایما پر ان کو مسترد کر دیا۔ اب اسی طرح کی تجاویز چین نے افغانستان کے سامنے رکھی ہیں اور میرے خیال میں کابل کے لئے یہ بڑا مشکل ہوگا کہ وہ ان کو مسترد کرے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خطے کے ممالک افغانستان میں امریکا کی موجودگی کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں،’’ماضی میں ایران، بھارت اور روس شمالی اتحاد کی حمایت کرتے تھے اور اس اتحاد سے وابستہ افراد کو آج بھی کابل میں بہت اثر و روسوخ حاصل ہے۔ لیکن روس کو داعش کے خلاف شام میں لڑنا پڑا، ایران بھی داعش سے خائف ہے جبکہ تورا بورا میں داعش کے لوگوں کا لایا گیا، جو ایران، روس اور پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے اور امریکی موجودگی کو طول دینے کا بھی سبب بنیں گے، جس کو چین پسند نہیں کرتا۔ تو بھارت کے علاوہ خطے کے سارے ممالک یہاں امن چاہتے ہیں۔ لیکن امن امریکا اور بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ نئی دہلی حکومت اس لئے امن نہیں چاہتی کیونکہ وہ افغان زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے جب کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ جس دن افغانستان میں امن ہوگیا، اس کو یہاں سے نکلنا پڑے گا اور واشنگٹن یہاں سے نکلنے کے لئے تو نہیں آیا ہے۔‘‘
لیکن تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ خطے میں امن کی عدم موجودگی کا ذمہ دار کابل اور اسلام آباد دونوں کو قرار دیتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اس طرح کے اجلاسوں اور فیصلوں کا۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کا پختہ ارادہ ہی نہیں ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔ میرے خیال میں جب اشرف غنی صدر بنے تو انہوں نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں کوئی ایسا پروجیکٹ شروع نہیں کیا جائے گا، جس کی فنڈنگ بھارت کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی مان گئے تھے کہ افغان فوج کے افسران کی تربیت پاکستان میں ہوگی لیکن ہم نے اس دور میں حقانی نیٹ ورک کو استعمال کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے کابل نئی دہلی کے نزدیک تر ہوتا چلا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے لئے مشکل ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو ختم کر ے یا اس کے خلاف کام کرے، ’’ہر ملک کو افغانستان میں ایک پراکسی چاہیے۔ پاکستان کے پراکسی حقانی وطالبان ہیں اور بھارت سمیت دوسرے ممالک اس کے خلاف ہیں۔ تو ایک ایسے وقت میں جب چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہے، بیجنگ کیوں چاہے گا کہ ایک بھارت مخالف گروپ کو افغانستان میں ختم کیا جائے۔ تو ایک طرح سے حقانی نیٹ ورک اب صرف پاکستان کا پراکسی نہیں ہے بلکہ وہ چین کا بھی پراکسی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’جب تک ہم افغانستان کے حوالے سے اپنا بیانیہ نہیں بدلیں گے، ہمارے تعلقات کابل سے اچھے نہیں ہوسکتے۔ افغانستان میں اب بھی کئی ایسے لوگ ہیں، جو پاکستان کی مہمان نوازی اور اس کی مدد یاد کرتے ہیں لیکن ہم نے ایک ایسا بیانیہ فروغ دیا ہے جس کے تحت ہم افغانوں کو احسان فراموش قرار دیتے ہیں۔ ہمارا سفیر لوگوں میں جاتا نہیں ہے۔ ہمیں ملیحہ لودھی جیسی کسی سفیر کو وہاں بھیجنا چاہیے تاکہ وہ لوگوں سے ملے اور فیصلہ کرنے کی ہمت بھی کرے۔‘‘