کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟
14 اکتوبر 2019پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے سہولت کار بن سکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ مسئلہ پیچیدہ ہونے کے باوجود حل کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ روز تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کا کہنا تھا،'' پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کی میزبانی کی ہے اور ایک مرتبہ پھر دونوں برادر ممالک کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ پر امن انداز سے اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ صرف اس خطے کو نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرے گا۔ کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، کئی ممالک کے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور یوں غربت میں بڑھے گی۔‘‘
پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی صورتحال پر کئی کتابوں کے مصنف زاہد حسین کی رائے میں یہ پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' ایران اور سعودی عرب کے تنازعات بہت گہرے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان خطے میں طاقت کے حصول کی جنگ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ وہ اس بہت پیچیدہ مسئلے میں سہولت کار بن سکے، لگتا نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی بہت زیادہ پیش رفت ہوگی۔‘‘ زاہد حسین کہتے ہیں کہ سعودی عرب ایران کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ایران کے خلاف اس کی پوزیشن بہت سخت ہے ایسے میں ان دو ممالک کو بات چیت پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ثالثی کے لیے کہا ہے، عمران خان
سعودی ایرانی کشیدگی میں کمی کے لیے عمران خان تہران میں
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں رپورٹنگ کرنے کا تجربہ رکھنے والے صحافی اویس توحید کہتے ہیں کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک روشن خیال لیڈر کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں اور ایران بھی اپنے آپ کو بطوراعتدال پسند ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں جنگ سے دونوں مسلم ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اویس توحید کا کہنا ہے کہ یمن میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ جاری ہے۔ اس مسئلے کا حل نہیں نکل رہا، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ اس ملک کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا اور اب حال ہی میں ترکی کی جانب سے شام میں کرد ملیشیا پر حملے کی صورت میں سعودی عرب جنگ کا بڑھاوا دیکھ رہا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں پھیل سکتا ہے۔ لیکن امریکا شام سے انخلاء چاہ رہا ہے اور سعودی عرب کو یہ بھی خطرہ ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں شاید وہ امریکا کی مکمل حمایت حاصل نہ کر پائے تو ایسی صورتحال میں کہیں نہ کہیں سعودی عرب بھی چاہے گا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے جائے معاملات حل ہوں۔
ایران کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔ ایران پر امریکا کی اقتصادی پابندیاں برقرار ہے اور سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کے باعث جنگ کی صورت میں اسے کثیر سرمایہ درکار ہوگا۔ اویس توحید کہتے ہیں کہ دونوں فریقین آخر کار بات چیت کی میز پر آئیں گے اور اس میں پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنا پر کردار ادا کرسکتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان کے سابق سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،'' پاکستان کے لیے دونوں ممالک اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں ممالک میں پاکستان کو بھی مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ اور اس بات کا ادراک سب کو ہو گیا ہے کہ جنگ کا نقصان سب کو ہوگا۔ نہ صرف دونوں ممالک کی تیل کی تنصیبات، انڈسٹری اور دیگر اثاثوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہوگا۔‘‘ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ کشیدگی کے باعث عالمی سطح پر تیل کی رسد گھٹتی ہے تو پوری دنیا کے لیے لمحہٴ فکریہ ہوگا۔ ماضی میں بھی پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کر چکا ہے لہٰذا اب بھی اس کام کے لیے پاکستان کا ہی نام لیا گیا ہے۔
پاکستان سہولت کار بن کر کیا حاصل کر سکتا ہے ؟
اس بار ے میں اویس توحید کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کا نام دہشت گردی کے حوالے سے لیا جاتا تھا۔ اسے خطر ناک ملک کہا جاتا تھا۔ اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا کردار ادا اکرسکتا یے تو پاکستان عالمی سطح پر اپنا تاثر مثبت بنا سکتا ہے۔ فرقہ واریت نے پاکستان کو کافی عرصے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔ اور اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرنے میں مثبت کرادر ادا کرتا ہے تو پاکستان کو اندرونی طور پر شیعہ سنی تنازعہ کے حوالے سے مثبت ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ اگر معاملات خراب ہوتے ہیں تو خود پاکستان کو بھی نقصان ہوگا کیوں کہ امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات نہیں بنا سکا۔ تو مثبت پیش رفت کی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ایران پر یہ پابندیاں اٹھائی جائیں اور یوں پاکستان بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکے گا۔