سیاحت کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بے شمار مقامات ہیں۔ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ لیکن ہم اپنے ہی ہاتھوں سیاحتی مقامات اور اس شعبے کی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
سیاحتی مقامات پر بڑھتی ڈویپلمنٹ ایک بہت اچھی اور صحت مندانہ اکنامک ایکٹویٹی ہے۔ اس سے مقامی لوگوں کے روزگار میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور ان کی معاشی حالت بہتر بھی ہوتی ہے۔ سیاحوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہوٹلز کی شکل میں دھڑا دھڑ بلڈنگز تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ بے ہنگم تعمیرات ماحولیاتی عدم توازن کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ زیادہ تر ایسے ہوٹلز دریا کے کنارے تعمیر کیے جاتے ہیں، جو کہ قانوناﹰ غلط ہے اور اگر قدرت کے قانون کو دیکھا جائے تب بھی یہ حد سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ پچھلے سال آئے سیلاب کے دوران سب نے دیکھا جب بے شمار ہوٹلز اور دریا کنارے کی جانے والی تعمیرات دریا برد ہو گئیں، جس سے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی ہوا۔
اس کے علاوہ ان عمارات کا فضلہ دریا میں ڈالا جاتا ہے۔ اس سے پانی گدلا اور مضر صحت ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی مثال دریائے کنہار کی ہے۔ بالا کوٹ کے مقام پر پورے شہر کا فضلہ اس کے اندر ڈالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سیاحتی علاقوں میں کسی بھی ایسی جگہ جائیں جہاں قدرت کی صناعی کھل کر سامنے آ رہی ہو وہیں ساتھ میں ہی دودھ کے خالی ڈبے، بسکٹس اور چپس کے خالی پیکٹ، پلاسٹک بوتلیں اور ٹافیز یا چاکلیٹ کے بے شمار ریپرز بکھرے نظر آئیں گے۔ ان مقامات پر یوز ایبل برتن اور ڈبے بھی جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں، جو ماحول کی خوبصورتی کو گہنا رہے ہوتے ہیں۔
اس لیے پلاسٹک ویسٹ کو (جس میں ریپرز اور بوتلیں وغیرہ شامل ہیں) سب سے پہلے ان علاقوں میں بین کر دینا چاہیے۔ یا پھر یوں کہیے کہ ایک مخصوص بلندی کے بعد یہ تمام چیزیں لے جانے پر پابندی ہو۔ اس کی بجائے ان علاقوں میں بائیو گریڈڈ بیگز استعمال کیے جائیں جو کہ زمین میں گل جاتے ہیں۔ جبکہ پلاسٹک زمین میں گلتا نہیں اور اگر جلایا جائے تو زہریلی گیسز پیدا کرتا ہے۔ یا پھر کپڑے کی تھیلیاں اور شیشے کی بوتلیں استعمال کی جائیں۔
ناران اور اس کے ارد گرد علاقوں میں ویسٹ مینجمنٹ پر کام کرنے والے نصر احمد بھٹی کا کہنا ہے کہ وہ 3 سال سے مسلسل مقامی آبادی اور سیاحوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور مسلسل آگاہی پھیلانے کے نتیجہ میں اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ کچرا بجائے ادھر ادھر پھیلانے کے ان کے مقرر کردہ مقامات پر پھینکا جانے لگا ہے۔
ملٹی سٹوری گرے سٹرکچر کو فروغ دینے کی بجائے روایتی طریقے سے بنے بانس، گھاس پھونس اور گارے کے گھر یا ہٹس بنائے جائیں۔ جو کہ ماحول دوست بھی ہیں اور ان میں موسموں کو سہنے کی صلاحیت بھی ہے۔ بانس تیزی سے اگنے والا پودا ہے اور اس کو استعمال کرنے کی وجہ سے درختوں کی بے جا کٹائی کو بھی روکا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے ان علاقوں کے روایتی گھر ہی تعمیر کرنے چاہییں، جن میں پتھر اور ری سائیکل لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مکانات سردی میں گرم اور گرمی میں سرد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں لداخ سمیت کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں ایسی ماحول دوست رہائشیں سیاحوں کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔ وہاں کسی بھی اور قسم کے میٹیریل سے تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بھی لازمی ہے کہ بطور سیاح اس بات کو ہم بھی سمجھیں کہ اگر ہم ان علاقوں میں قدرت سے قریب ہونے جاتے ہیں تو ہمیں ہر طرح کی سہولت مانگنے کے بجائے اس علاقے کے لوگوں کے مخصوص رہن سہن کے انداز کو بطور ایڈونچر ہی سہی اپنانا ہو گا تاکہ قدرتی ماحول میں رہنے کا مزا بھی لیا جائے اور اس ماحول کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بھی رکھا جائے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔