1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں کچھ عناصر احتساب سے بالا تر ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 اپریل 2018

پاکستانی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے جنرل کیانی کے خلاف درج کی گئی ایک پٹیشن کو اعتراضات لگا کر واپس کرنے کے بعد ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ریاست کے ’طاقتور افراد‘ احتساب سے بالا تر ہوتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wQ4t
Symbolbild Pakistan Militär Soldat
تصویر: Reuters/A. Soomro

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی طرف سے دائر کردہ اس پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ آرمی کے ایک سابق جنرل نے فوج کے زیرِ اتنظام اسپتالوں کو غیر معیاری دوائیں فراہم کیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کی تحقیق غیر جانبدار اداروں کے ذریعے کرائی جائے اور اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اس پٹیشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فوج کے اسپتالوں کو ایک منظم طریقے سے دوائیاں فراہم کی جاتی تھیں اور یہ ہسپتال براہ راست ادویات نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن ایک کورکمانڈر صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ایک دوائی بنانے کی فیکڑ ی لگالی اور انہوں نے غیر معیاری دوائیں بنانا شروع کر دیں۔ پنجاب ڈرگ اتھارٹی نے ایک رپورٹ میں ان ادویات کو جعلی اور مضرِ صحت قرار دیا۔ کیونکہ یہ ریٹائرڈ کور کمانڈر صاحب فوج میں ایک انتہائی سینیئر افسر کے دوست تھے۔ اس لئے فوج کے ہسپتالوں کو ایک جعلی خط لکھ کر یہ کہا گیا کہ وہ اس کمپنی سے ادویات خرید سکتے ہیں۔ میں نے اس معاملے کی پوری تحقیق کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکی تھی، جسے رجسٹرار نے اعترضات لگا کر واپس کر دیا ہے۔ اب میں اس کے خلاف اپیل کروں گا۔‘‘
پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کو اس لئے منطور نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے آرمی افسران کے نام ہیں، جو انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ابھی کچھ ہی برس پہلے وہ ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر  پھیل رہا ہے کہ ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہو سکتا ہے۔ فوج کے جرنیلوں کا احتساب کرنے کے لئے کوئی ادارہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار مطیع اللہ جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس پٹیشن کو کیسے منظور کر لیا جاتا۔ اس میں کچھ ایسے افسران کے نام ہیں، جو ابھی کچھ ہی برسوں پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اگر ان کی تحقیق کی تو ہو سکتا ہے کہ حاضر سروس افراد کے نام بھی آجائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نیب نے بھی ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے۔ وہ سیاست دانوں کے پیچھے تو پڑی ہوئی ہے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ جرنیلوں کا احتساب کر سکے۔ مشرف سمیت جن جرنیلوں کے خلاف ابھی انکوائری کھولی گئی ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ صرف اس لئے کھولی گئی ہے تاکہ عوام کی نظروں میں نیب کا امیج بہتر ہو سکے۔‘‘
سیاسی مبصر ڈاکڑ توصیف احمد خان مطیع اللہ جان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’’کیا ایوب کا کوئی احتساب ہوا؟کیا جنرل یحیٰی خان ، جس نے ملک کے دو ٹکڑے کئے، اس کو کوئی احتساب ہوا۔ کیاجنرل ضیاء جس نے آئین توڑا، اس کا کوئی احتساب ہوا۔ تو اس ملک میں جنرلوں کا توکبھی بھی احتساب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ تاہم سیاست دان ہمیشہ اس کا شکار رہے ہیں۔‘‘
لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے تجزیہ نگار اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ جنرلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ معروف سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں در حقیقت اس ملک میں سیاست دانوں کا آج تک صحیح معنوں میں احتساب نہیں ہوا ہے،’’یہ بات صحیح ہے کہ سیاست دانوں کے نیب میں مقدمے ہیں لیکن مجھے آپ کسی ایک سیاست دان کا نام بتا دیں ، جسے سزا ہوئی ہو۔ لوگ آرمی کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ آرمی کا اپنا اندورنی احتساب کا نظام انتہائی مضبوط ہے اور وہاں افسران کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ جہاں تک اس پٹیشن کی بات ہے، اس میں لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ آرمی کے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بالکل میرٹ کی بنیاد پر ہے اور آپ کسی بھی آرمی ہسپتال میں چلے جائیں، وہاں آپ کو تما م ادویات ملیں گی اور یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ان ادویات کا معیار بہتر نہیں ہیں یا یہ جعلی ہیں۔ فوجی ہسپتالوں کی اپنی لیبارٹریز ہیں، جہاں ادویات کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنرل حمید گل، جنرل درانی، جنرل اسلم بیگ، جنرل جاوید اشرف قاضی سمیت کئی فوجی عہدیداروں کے نام مختلف مقدمات اور الزامات میں آئے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ تاہم انعام الرحیم کا خیال ہے کہ اب عدالتوں کو جنرلوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی ورنہ ان کی غیر جانب داری پر بہت بڑا سوالیہ نشان آئے گا۔

Pakistani National Accountability Bureau (NAB)
’’مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نیب نے بھی ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے‘‘تصویر: picture-alliance/AA/M. Reza