کیا پاکستان واقعی امریکی حلقہِ اثر سے نکل رہا ہے؟
15 فروری 2018تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اسے سفارتی محاذ پر نقصان ہوسکتا ہے۔ واضح رہے سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکی اور سرمایہ دارانہ کیمپ میں رہا، جس کی وجہ سے اس کے پاس سفارتی محاذ پر امکانات کی کمی رہی۔
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان اپنی مرضی یا خوشی سے چین کے قریب نہیں ہورہا بلکہ یہ غیر دانشمندانہ امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام آباد اب بیجنگ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ امریکا نے پاکستان کی قربانیوں کے عوض ہمیشہ اس سے مزید مطالبات کیے اور پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کیا۔ اس کے برعکس چین نے سفارتی اور معاشی سطح پر پاکستان کی بہت مدد کی۔ سی پیک میں چین کی طرف سے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد اس بات کی غماز ہے کہ اگر امریکا پاکستان پر کوئی دباؤ ڈالتا ہے تو چین مدد کے لیے تیار ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی دانشمندانہ ہے کیونکہ سرد جنگ کے دوران ہم نے صرف امریکا سے دوستی رکھی جب کہ بھارت نے دونوں سپر طاقتوں سے تعلقات استوار رکھے اور اس کے علاوہ غیر جانبدار ممالک سے بھی اچھے تعلقات رکھے جس کی وجہ سے آج بھارت سفارتی محاذ پر بہت مضبوط ہے۔ لہذا ہمیں چین، روس، ایران اور امریکا سب سے بہتر تعلقات رکھنا چاہییں۔ صرف کسی ایک ملک پر انحصار دانشمندی نہیں۔‘‘
پریسٹن یونیورسٹی اسلام آبادکے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ واشنگٹن نے پاکستان کے سکیورٹی تحفظات کو نہیں سمجھا اور اسی لیے پاکستان چین کی طرف ہوتا جا رہا ہے، ’’مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے کئی مواقعوں پر امریکا کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر ورسوخ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن امریکا نے ان تحفظات کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ الٹا افغانستان میں بھارت کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اب پاکستان روس، چین، ایران اور ترکی سمیت خطے کے تمام ممالک سے بہتر تعلقات بنا رہا ہے، جو ایک مثبت چیز ہے۔ پاکستان کو علم ہے کہ امریکا افغانستان میں اسلام آباد کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے ہماری حکومت اپنے کارڈ چالاکی سے کھیل رہی ہے۔ لیکن سارا انحصار چین پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیگر آپشنز کے حوالے سے بھی سوچنا چاہیے۔‘‘
لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رضا کے خیال میں پاکستان کی پالیسیوں میں استقامت نہیں ہے اور اگر پاکستان واشنگٹن کو ناراض کرتا ہے تو اسے بین الاقوامی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے اس کو چین نہیں بچا سکتا۔ ’’ہم پر جب دباؤ آتا ہے تو ہم کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ امریکا کب سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم جماعت الدعوہ، جیشِ محمد، الاختر ٹرسٹ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف اقدامات کریں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، اب دباؤ کے بعد ہم ایسا کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کی حوالے سے دنیا میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ اس پالیسی کے ساتھ ہمیں صرف سفارتی تنہائی ملے گی۔ لہذا ہمیں یہ سوچ کر چین کے ساتھ نہیں جانا چاہیے کہ وہ ہمیں اس تنہائی سے بچا لے گا بلکہ ہمیں اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔‘‘