کیا پاکستان کی عدلیہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے خطرہ ہے؟
19 جون 2022ویسے تو پاکستان کے سیاسی کلچر میں وزیر اعظم کا اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنا ایک ”معمول" ہے لیکن پینسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کا براہ راست سبب عدالتی فیصلہ تھا۔ اس غیر معمولی قدم کو معروف صحافی سرل المیڈا نے ”عدالتی آمریت" سے تشبیہ دی۔ ان کے مطابق عدالت ”کھیل کے نئے اصول" طے کر رہی ہے، ایک ایسا کھیل جس میں ”بطور کھلاڑی وہ اپنا آپ منوانے کے لیے پرعزم ہے۔"
اس کے بعد ایک اور وزیراعظم کی برطرفی سمیت عدالتی فیصلوں اور تشبیہات سے بھری جارحانہ زبان دیکھتے ہوئے اسے جوڈیشل ڈکٹیٹرشپ نہ بھی کہیں تو یہ ”جیوڈیشل اووریچ" یعنی عدالت کا اپنی حدود سے تجاوز ضرور ہے جس پر وکلا، سول سوسائٹی اور اراکین پارلیمان کے علاؤہ اعلی عدلیہ کے ججز بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ عدالت کے اس جارحانہ رویے کو عدلیہ بحالی تحریک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔
ملک کی ابتر سیاسی و اقتصادی صورتحال، دہشت گردی کی لہر اور مشرف کے بعد فوج کی مقبولیت میں کمی نے عدلیہ کو موقع فراہم کیا جو 2009 میں بحال ہوتے ہی ”نجات دہندہ" کے روپ میں سامنے آئی۔ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے گذشتہ پندرہ برس سے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اور ”ایک اور وزیر اعظم، پانامہ مقدمے کی پوری کہانی" کے مصنف اعظم خان اس وقت کے ماحول کے متعلق ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ایسا لگتا تھا ملک میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ میڈیا کا چیف جسٹس افتخار چودھری کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنا عوام کے لیے متاثر کن تھا۔ بڑے بڑے سیکرٹری اور وزا گھنٹوں عدالت میں انتظار کرتے جس سے لگتا واقعی قانون سب کے لیے برابر ہے۔" وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”بعد میں پتہ چلا سب سراب تھا۔"
لیکن عاصمہ جہانگیر نے یہ سراب پہچانے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔ فروری 2010 میں کراچی پریس کلب کے اندر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں نے عدالتی آمریت دیکھی ہے ہم اس طرف جا رہے ہیں،وہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ عوام سیاسی آمریت کو بھول جائیں گے۔" انہوں نے افتخار محمد چودھری کے رویے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا، ” وہ چاہتے ہیں ہمارے منہ سے جو بھی لفظ نکلے اسے فوری پورا کیا جائے ورنہ کالے کوٹ والے آپ کو ٹھیک کردیں گے۔ یہ ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو زیب نہیں دیتا۔"
ایسا لگتا ہے افتخار چودھری کے مذکورہ رویے نے بعد کی عدالتی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور نامور قانون دان عرفان قادر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ماضی میں مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے افتخار چودھری نے بیک جنبشِ قلم ان تمام ججز کو فارغ کر دیا جن میں سے بیشتر آئینی صدر نے تعینات کیے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مرضی کے ججز لگائے اور خود 'چیف آف جوڈیشل سٹاف‘ بن کر بیٹھ گئے۔" وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس جو اختیارات بطور ادارہ تھے وہ فرد واحد تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس سلسلے میں وہ ”ججز تعیناتی اور سوموٹو" کی مثال دیتے ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی میں اعلی عدلیہ کے جو اقدامات مسلسل تنقید کی زد پر رہے ان میں سے ایک آئین کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت حاصل سوموٹو اختیارات کا بے تحاشا استعمال تھا۔ خود کو ”بابا رحمتے" اور ”جوڈیشل ایکٹیوزم " کا بانی قرار دینے والے ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس 43 مرتبہ سوموٹو نوٹسز لیے۔
سوموٹو کے طریقہ کو تبدیل کرنے کے لیے فاروق ایچ نائیک متعلقہ قوانین کا نیا مسودہ تیار کر کے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کر چکے ہیں جس میں یہ اختیار فرد واحد کے بجائے تین رکنی بینچ کو دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دورے، ڈیم فنڈ اور انتظامی امور میں قدم قدم پر مداخلت سے جہاں پارلیمان کمزور ہوئی وہیں عدالتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ جس وقت انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنا عہدہ سنبھالا تب سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 32 ہزار تھی جو دو سال 17 دن بعد ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت 40 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ عدالتوں میں تقریباً 20 لاکھ مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں لیکن اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کی دلچسپی کا مرکز عدالتی اصلاحات کے بجائے سیاسی معاملات ہیں۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی 2021 میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق قانون کی بدترین حکمرانی کے حوالے سے پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر ہے جس میں سول اور فوجداری مقدمات کا زیر التوا رہنا ایک بڑی وجہ ہے۔
یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس میں بطور وکیل استغاثہ پیش ہونے والے عرفان قادر دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلوں کو مایوس کن قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ”جو لوگ منتخب نہیں ہوئے ان کے پاس یہ اختیار کہاں سے آ گیا کہ وہ عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر بھیجیں، بالخصوص وزیراعظم کو، یہ دن دیہاڑے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ہے۔"
دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے علاؤہ کئی اراکین پارلیمان کو توہین عدالت اور دیگر بنیادوں پر نااہل قرار دینا، نواز شریف کو پارٹی قیادت سے ہٹانا (جس کے بعد ان کی جماعت سینٹ میں پارٹی ٹکٹ کے بغیر الیکشن لڑنے پر مجبور ہو گئی تھی)، 2013 کے انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور 2018 کے انتخابات سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے انتظامی اور آئینی امور میں مسلسل مداخلت سے ان کی ساکھ مجروح کرنا، حساس مقامات میں مخصوص بنچز تشکیل دینا(جس پر جسٹس مقبول باقر نے اپنے الوداعی ریفرنس میں تنقید کی تھی)، ایک سیاستدان کو ”سسلین مافیا" اور ”گاڈ فادر" کے القابات سے نوازنا جبکہ دوسرے کو ”صادق اور امین" کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سمیت ایسی کئی مثالیں ہیں جو پاکستان کی اعلی عدلیہ کو قانونی میدان سے نکال کر سیاسی اکھاڑے میں لا کھڑا کرتی ہیں۔
سابق گورنر پنجاب اور اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گذشتہ ایک دہائی میں عدلیہ کی پارلیمانی اور سیاسی امور میں مداخلت حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ لیکن وہ اس کا حل جمہوری عمل اور آئینی اصلاحات میں دیکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ”دو وزرائے اعظم قربان کرنے کے باوجود سیاست دانوں نے ریاستی اداروں پر حملہ نہیں کیا کیونکہ ہم اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پارلیمان کی بالادستی پر سمجھوتہ کر لیں گے۔" ان کا کہنا تھا،”جیسے ہی موقع ملا ہم تمام سیاسی جماعتیں ایسے قوانین ختم کر دیں گے جو فوجی آمروں نے آئین میں شامل کیے اور جن کی آڑ میں غیر منتخب قوتیں عوامی نمائندوں کو ان کے اختیارات سے محروم کرتی ہیں۔"
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ اس قدر سیاسی تفریق میں عوامی نمائندے آئینی ترامیم پر کیسے متفق ہوں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ”ریگزار سیاست میں دشت نوردی انہیں سب کچھ سکھا دے گی۔ آج جو چیزیں دوسروں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں کل وہی ان کے خلاف استعمال ہوں گی تو انہیں سب سمجھ آجاۓ گا۔"
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”اٹھارویں ترمیم کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے نیب اور آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ کو ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ آئین میں یہ ٹاٹ کے پیوند فوجی ڈکٹیٹرز نے لگائے تھے لیکن مسلم لیگ تیار نہ ہوئی کیونکہ ان کا خیال تھا یہ دونوں صرف پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوں گے۔ بعد میں یہی چیز میاں نواز شریف کی عدالتی رخصتی کا باعث بنی۔ ایسے ہی ہمارے پی ٹی آئی کے دوست بھی ایک دن سمجھ جائیں گے۔"
جمہوری عمل نے پاکستان کو اٹھارہویں ترمیم جیسی متفقہ آئینی اصلاحات دیں، سو جلد یا بدیر پارلیمان کی بالادستی کے لیے سیاسی جماعتیں ایک بار پھر ویسے ہی ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں گی۔