کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف عدالتی درخواست واپس لے لی گئی
22 مارچ 2024بھارتی ریاست دہلی کے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے ایک رہنما اروند کیجریوال نے بد عنوانی کے ایک مقدمے میں اپنی گرفتاری کے خلاف سرپم کورٹ میں دی گئی درخواست واپس لے لی ہے۔ کیجریوال کو 2022ء میں ریاست میں الکوحل کی فروخت سے متعلق پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے معاملے میں جمعرات کے روز گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان کی جماعت عام آدمی پارٹی نے کیجریوال کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ میں آج جمعے کے روز سماعت کے دوران کیجریوال کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے اپنی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ تفتیش کے لیے ریمانڈ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کیجریوال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری کا مقصد اگلے ماہ عام انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے والوں کو راستے سے ہٹانا ہے۔
وہ ملکی اپوزیشن بلاک کے ان کئی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہیں مجرمانہ تحقیقات کے تحت مقدمات کا سامنا ہے۔ کیجریوال کے ایک ساتھی نے ان کی گرفتاری کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے تیار کی گئی ایک ''سیاسی سازش‘‘ قرار دیا ہے۔
جمعہ 22 مارچ کے روز ہی پولیس نے بی جے پی کے دہلی ہیڈکوارٹرز کے سامنے کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے عام آدمی پارٹی کی احتجاج کی متوقع کال کے پیش نظر رکاوٹیں بھی کھڑی کر دیں۔
تین سال پرانا مقدمہ
کیجریوال کی حکومت پر 2021 ء میں شراب کی فروخت کو آزاد کرنے کی پالیسی کا نفاذ کر تے ہوئے اس منافع بخش کاروبار پر حکومتی اجارہ داری ختم کر نے سے متعلق بد عنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
اس پالیسی کو اگلے ہی سال واپس لے لیا گیا تھا لیکن الکوحل کی فروخت کے لائسنسوں میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے نتیجے میں کیجریوال کے دو اہم اتحادیوں کو جیل بھجوایا جا چکا ہے۔ 55 سالہ کیجریوال تقریباً ایک دہائی سے دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
وہ پہلی بار بدعنوانی کے خلاف ایک سخت گیر موقف رکھنے والے شخص کے طور پر وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ کیجریوال نے تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر پوچھ گچھ کے لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے متعدد سمن جاری کیے جانے پر بھی مزاحمت کی تھی۔
'جیل سے حکومت چلائیں گے‘
دہلی کی وزیر تعلیم آتشی مارلینا سنگھ نے جمعرات کے روز کہا کہ کیجریوال نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ''ہم نے شروع سے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو اروند کیجریوال جیل سے حکومت چلائیں گے۔‘‘
تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ملکی اپوزیشن بلاک کے ایک رکن ایم کے اسٹالن نے کہا ہے کہ کیجریوال کی گرفتاری ''ایک مایوس کن سیاسی انتقام کا شاخسانہ‘‘ہے۔ انہوں نے کہا، ''بی جے پی کے کسی بھی رہنما کو تفتیش یا گرفتاری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس سے وہ اپنے اختیارات کے غلط استعمال اور جمہوریت کے زوال کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
بھارت میں سکڑتی جمہوریت
جمہوریت کے فروغ کے لیے امریکہ میں قائم تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے اس سال کے آغاز پر کہا تھا کہ بی جے پی نے ''سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے حکومتی اداروں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا ہے۔‘‘ بھارت میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سب سے نمایاں رہنما راہول گاندھی کو مودی کی پارٹی کے ایک رکن کی شکایت کے بعد گزشتہ سال پارلیمنٹ کی توہین کے الزامات پر مجرمانہ نوعیت کے ایک مقدمے میں ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس مقدمے میں ان کو سنائی جانے والی سزا کی وجہ سے انہیں بطور رکن پارلیمان اس وقت تک نااہل رکھاگیا، جب تک کہ ایک عدالت نے ان کے خلاف اس فیصلے کو معطل نہ کیا۔ تاہم اس واقعے نے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں جمہوری اصولوں پر عمل در آمد کے حوالے سے مزید تشویش کو جنم دیا تھا۔
کیجریوال اور راہول گاندھی دونوں دو درجن سے زیادہ جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف کے ایک ایسی ملک گیر اتحاد کے رہنماؤں میں شامل ہیں، جو اپریل سے جون تک منعقد ہونے والے بھارت کے قومی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لے رہا ہے۔ تاہم اس اتحاد سے کم ہی توقع کی جارہی ہے کہ وہ مودی کے خلاف کوئی بڑی فتح حاصل کر سکتا ہے ۔
بہت سے تجزیہ کار ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے بر سر اقتدار نریندر مودی کے آئندہ دوبارہ انتخاب کو پہلے سے طے شدہ انتخابی نتیجے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کی ایک وجہ ان کی جماعت بی جے پی کی ملک کی ہندو اکثریتی آبادی کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اپنائی گئی ہندو قوم پرستانہ سیاست ہے۔
ش ر⁄ م م (اے ایف پی)