گجرات کے احسان اللہ کو جرمنی سے ملک بدر کیوں کیا گیا؟
25 دسمبر 2015احسان اللہ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ محکمہ پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر کام کر رہا تھا۔ لیکن اس نے سب کچھ چھوڑ کر رواں برس اکتوبر میں جرمنی کی طرف غیر قانونی سفر پر نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ترک وطن کی وجہ بتاتے ہوئے احسان اللہ کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں دشمنی کی وجہ سے کئی لوگ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ میں نے تحریک طالبان پاکستان کے ایک شدت پسند کو گرفتار بھی کروایا تھا۔ اس کے ساتھی بھی میری جان کے درپے ہیں۔‘‘
ایک ایجنٹ کو بھاری رقم دے کر احسان اللہ ایران پہنچا، جہاں سے وہ ایک طویل پیدل سفر کے بعد ترکی اور پھر سمندری سفر کے بعد یونانی جزیرے کوس پہنچ گیا۔ دیگر مہاجرین کی طرح وہ بھی مقدونیہ، سربیا اور کروشیا سے ہوتا ہوا آسٹریا پہنچ گیا۔ پاکستان سے نکلنے کے بعد آخر کار ستائیس نومبر کو آسٹریا سے ہوتا ہوا وہ جرمنی کے شہر میونخ پہنچ گیا۔
احسان اللہ جب میونخ میں پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے کے مرکز میں پہنچا تو اس کا خیال تھا کہ اس کا سفر ختم ہو چکا ہے۔ لیکن وہاں سب کچھ اس کی توقعات کے خلاف ہوا۔
ابتدائی رجسٹریشن کے مرکز میں اس کی انگلیوں کے نشانات لینے کے فوراﹰ بعد اسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ایک دن حوالات میں رکھنے کے بعد اسے جرمنی سے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اگلے ہی دن اسے آسٹرین پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
عام طور پر تارکین وطن کو ابتدائی رجسٹریشن کے بعد عارضی رہائش گاہ مہیا کر دی جاتی ہے۔ لیکن احسان اللہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں اُس نے بتایا، ’’ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ تین سال پہلے میں نے فیس بک کے ذریعے ایک جرمن عورت سے دوستی کرنے کے بعد اس کو پاکستان بلایا اور ہم نے شادی کر لی تھی۔‘‘
ہوا یہ کہ جیسے ہی اس کی انگلیوں کے نشانات لیے گئے، جرمن ایمبیسی میں دی گئی ویزے کی درخواست کا سارا ریکارڈ پولیس کے سامنے آ گیا۔ احسان اللہ نے جرمن عورت سے شادی کے بعد 2012ء میں ویزے کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
انہی وجوہات کی بنا پر جرمن حکام نے اس پاکستانی شہری کو پناہ کا حق دار تسلیم نہ کیا اور اسے فوراﹰ ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
احسان اللہ کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی میں اپنی بیوی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن ’’جرمن پولیس نے میرے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ مجھے پناہ بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی میرا رابطہ میری بیوی سے کروایا گیا۔‘‘
پنجاب پولیس کا یہ سابق ہیڈ کانسٹیبل ان دنوں آسٹریا کے شہر ویانا میں موجود ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا، ’’آسٹریا میں مجھے رہنے کی جگہ نہیں دی گئی۔ یہاں مجھے اسٹیشن پر سونا پڑتا ہے اور کھانے پینے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ میں آسٹریا میں بہت ذلیل ہو رہا ہوں۔‘‘
اسے یہ بھی شکوہ ہے کہ اس کے بقول یورپ میں پاکستانیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ احسان اللہ کا کہنا ہے، ’’افغانستان، عراق اور شام سے آنے والے تارکین وطن کے ساتھ یہ لوگ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔‘‘
جرمنی میں مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دینے میں ترجیح دی جاتی ہے۔
پنجاب پولیس کے اس سابق ہیڈ کانسٹیبل کو ان دنوں ویانا کی سڑکوں پر رات دن بسر کرنا پڑ رہے ہیں۔ اسے اب بھی امید ہے کہ اسے دوبارہ جرمنی داخلے کی اجازت مل جائے گی۔ اس نے کہا، ’’میں جرمنی سے کچھ نہیں مانگتا۔ مجھے صرف میری بیوی کے پاس رہنے کی اجازت دی جائے۔‘‘