’گرفتاری سے خائف دہشت گردوں نے برسلز حملے عجلت میں کیے‘
24 مارچ 2016برسلز سے جمعرات چوبیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اب تک کی چھان بین سے یہ اشارے ملے ہیں کہ منگل بائیس مارچ کے روز برسلز کے ہوائی اڈے اور شہر کے ایک میٹرو اسٹیشن پر مجموعی طور پر تین خود کش حملے کرنے والے عسکریت پسندوں نے اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں اس لیے جلد بازی کی کہ انہیں خوف تھا کہ ان کے گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا تھا اور وہ کسی بھی وقت گرفتار کیے جا سکتے تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے ان حملوں کی تحقیقات کرنے والے چیف پراسیکیوٹر فریڈریک وان لِیو کی طرف سے چھان بین کی تفصیلات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب تک اس تیسرے مشتبہ ملزم نجم لاشراوی کی تلاش بھی شدت سے جاری ہے، جسے ایئر پورٹ پر خود کش حملے کرنے والے دو دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ شواہد کی بنیاد پر تفتیشی ماہرین اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے ہیں کہ گزشتہ برس نومبر میں پیرس میں اور دو روز قبل برسلز میں خونریز حملے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ایک ہی خفیہ سیل کی کارروائی تھے۔
پچھلے سال تیرہ نومبر کو پیرس میں مختلف اہداف پر کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی ہفتے منگل کے روز برسلز میں دو اہداف پر کیے گئے تین خود کش حملوں میں مجموعی طور پر 31 افراد ہلاک اور 270 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان دونوں حملوں کی ذمے داری شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ قبول کر چکی ہے۔
دیگر خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق بیلجیم کی پولیس اس وقت ایک اور ایسے مشتبہ ملزم کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے ہے، جس نے مبینہ طور پر برسلز میں میٹرو اسٹیشن پر خود کش حملے کے ملزم کی مدد کی تھی۔
برسلز ایئر پورٹ پر خود کش بم دھماکے دو ایسے شدت پسندوں نے کیے، جن کے نام ابراہیم البکراوی اور خالد البکراوی تھے، جو آپس میں بھائی تھے اور جن سے ان کی ’عام مجرموں کی سی حرکات‘ کے باعث پولیس پہلے سے ہی واقف تھی۔
چیف پراسیکیوٹر وان لِیو کی طرف سے اب تک کی تفتیش کے مطابق ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ جن تین خود کش حملہ آوروں نے برسلز میں بم دھماکے کیے، وہ سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور اپنے لیے کم پڑتے جا رہے وقت کے سبب بدحواسی کا شکار تھے۔
چیف پراسیکیوٹر کے مطابق ایئر پورٹ پر دوہرے خود کش حملے کے ملزمان البکراوی برادران کی شناخت ہو جانے کے بعد پولیس نے جب ان کی آخری معلوم رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو گھر کے باہر کوڑے کے ایک کنٹینز سے پولیس کو ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر بھی ملا تھا۔ اس کمپیوٹر کے تفصیلی معائنے کے دوران سافٹ ویئر ماہرین کے ہاتھ مبینہ طور پر ابراہیم البکراوی کا ایک ایسا پیغام بھی لگا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیرس حملوں کے مرکزی زندہ ملزم صالح عبدالسلام کی گرفتاری کے بعد دونوں البکراوی بھائیوں کی سوچ یہ تھی کہ وہ بھی عنقریب گرفتار کر لیے جائیں گے۔
فریڈریک وان لِیو کے مطابق اس پیغام میں لکھا گیا تھا، ’’میں نہیں جانتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں جلدی میں ہوں۔ لوگ مجھے ہر جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ اگر میں خود کو قانون کے حوالے کر دوں تو میں بھی اس (صالح عبدالسلام) کے ساتھ والے سیل میں بند کر دیا جاؤں گا۔‘‘