گرمی کی متوقع لہر: ہسپتال، سرد خانے اور قبرستان تیار
20 مئی 2016گزشتہ برس کراچی میں گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے کم ازکم تیرہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے اس شہر کے ہسپتال اور سرد خانوں کے علاوہ قبرستانوں میں بھی ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔
کراچی کے ایک قبرستان کے گورکن اٹھائیس سالہ شاہد بلوچ نے روئٹرز کو بتایا، ’’خدا کا شکر ہے۔ اس سال ہم زیادہ بہتر طریقے سے تیار ہیں۔‘‘ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کی معاونت سے چلائے جانے والے ایک اہم قبرستان کے منتظم ہیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں کے ساتھ مل کر مردوں کو دفناتے ہیں۔
گزشتہ برس جب گرمی کی شدید لہر نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تو متاثرین کے لیے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی تھی، ہلاک ہونے والوں کو سرد خانوں میں رکھنے کی جگہ کم ہو گئی تھی اور یہاں تک کہ لوگوں کو دفن کرنے کی جگہ بھی دستیاب نہیں ہو رہی تھی۔
پچھلے برس بیس ملین کی آبادی والے اس شہر میں گرمی کی وجہ سے انتقال کر جانے والوں میں زیادہ تر منشیات کے عادی، دھوپ میں کام کرنے والے مزدور اور بزرگ افراد تھے۔
گزشتہ برس کراچی میں درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، جو سن 1981 کے بعد گرما کا شدید ترین موسم قرار دیا گیا تھا۔ عمومی طور پر کراچی میں موسم گرما میں درجہ حرارت 37 سینٹی گریڈ تک ہی جاتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اس برس توقع نہیں کہ درجہ حرارت ایک مرتبہ پھر بہت ہی زیادہ ہو گا لیکن کراچی کی انتظامیہ نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی تیاری کر لی ہے۔
کراچی کے کمشنر آصف حیدر شاہ نے روئٹرز کو بتایا، ’’جس طرح گزشتہ برس ہوا، اس مرتبہ ویسا نہیں ہو گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ساٹھ ہسپتالوں میں اٹھارہ سو پچاس افراد کے لیے اضافی بستر لگا دیے گئے ہیں، جو خصوصی طور پر گرمی کا شکار ہونے والے افراد کے لیے مختص ہوں گے۔
گزشتہ برس گرمی لگ جانے کی وجہ سے بیمار ہونے والے متاثرہ افراد کو ہسپتالوں میں رش کے باعث کافی جگہ نہ مل پائی تھی۔ آصف حیدر شاہ نے بتایا کہ علاوہ ازیں شہر بھر میں دو سو کے قریب ’فرسٹ رسپانس سینٹر‘ قائم کیے گئے ہیں جبکہ سات سو عارضی ریلیف سینٹر بھی بنائے گئے ہیں۔
اسی طرح ایدھی فاؤنڈیشن نے بھی کراچی بھر میں اپنی سروسز میں مزید تیزی لانے کا عندیہ دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس امدادی فاؤنڈیشن نے ایمبولینس گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ فرسٹ ایڈ سینٹر بھی کھول دیے ہیں جبکہ لاشیں رکھنے کے لیے سرد خانوں کی تعداد میں بھی اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے باعث قبرستانوں کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہو گئی تھی، جہاں لوگوں کو اپنے عزیزوں کو دفن کرنے کی جگہ دستیاب نہیں تھی۔ کئی لوگوں کو تو اپنے رشتہ داروں کی قبروں کو ہی دوبارہ استعمال کرنا پڑ گیا تھا۔ گرمی اور شدید دھوپ کے باعث کئی گورکنوں نے اپنی اجرتیں بھی بڑھا دی تھیں۔
صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے مذہبی امور عبدالقیوم سومرو نے کہا ہے کہ مذہبی رہنما بات چیت میں یہ فتویٰ جاری کرنے پر غور کریں گے کہ اگر گرمی کی شدت بہت زیادہ ہو تو لوگ اپنا روزہ توڑ دیں۔ تاہم کمشنر آصف حیدر شاہ کے مطابق یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔ گرمی کے موسم میں لوڈ شیڈنگ کو بھی ایک شدید مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ اس مرتبہ موسم گرما میں اس حوالے سے بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔