'گلوان تصادم کے بعد سے بھارت اور چین تعلقات غیر معمولی ہیں'
27 ستمبر 2023بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں ہیں، جہاں انہوں نے کہا کہ سن 2020 میں ہونے والے گلوان تصادم کے بعد سے بھارت اور چین کے تعلقات ایک ''غیر معمولی حالت'' میں ہیں اور یہ مسئلہ ''ممکنہ طور پر درمیانی مدت کے معاملے سے زیادہ طویل'' ہے۔
بھارتی ایتھلیٹس کے لیے چینی ویزوں کا مسئلہ
انہوں نے بھارت اور چین تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ اگر دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک کے درمیان اس حد تک کشیدگی ہے تو ''اس کے نتائج بھی باقی سب پر مرتب ہوتے ہیں۔'' وہ نیویارک میں خارجہ تعلقات کی کونسل میں بات چیت کر رہے تھے۔
جی ٹوئنٹی کے دہلی اجلاس میں چینی وفد کا 'پراسرار‘ تھیلا
جے شنکر نے مزید کہا، ''آپ کو معلوم ہے کہ چین کے ساتھ نمٹنے میں خوشیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو کبھی بھی یہ نہیں بتاتے کہ وہ ایسا کام کیوں کرتے ہیں۔ اس لیے آپ اکثر اس کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور ہمیشہ ہی اس میں کچھ ابہام رہتا ہے۔''
چینی صدر کی جی 20 میں شرکت نہ کرنے کی خبر سے جو بائیڈن مایوس
بھارتی وزیر نے مزید کہا کہ ''کسی ایسے ملک کے ساتھ نارمل رہنے کی کوشش کرنا بہت مشکل ہے، جس نے معاہدوں کو توڑا ہو اور اس نے جو کچھ کیا وہ تو کیا ہی ہے۔ لہذا اگر آپ پچھلے تین سالوں کو دیکھیں تو یہ ایک بہت ہی غیر معمولی حالت رہی ہے۔''
مودی اور شی جن پنگ سرحدی 'تناو جلد از جلد کم' کرنے پر متفق
جے شنکر نے کہا، ''رابطے منقطع ہو گئے ہیں، دورے بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ ہمارے درمیان یقیناً اعلیٰ سطح کی فوجی کشیدگی بھی ہے۔ اس صورت حال نے بھارت میں چین کے تاثر کو بھی متاثر کیا ہے۔''
بھارتی وزیر خارجہ نے نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایک تاریخی تناظر کا خاکہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ رشتے کبھی بھی آسان نہیں رہے۔
چین نے اروناچل کے کھلاڑیوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزا نہیں دیا
انہوں نے کہا کہ ''سن 1962 میں جنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی فوجی واقعات ہوئے۔ لیکن سن 1975 کے بعد سرحد پر کبھی بھی جنگی صورتحال کے سبب ہلاکتیں نہیں ہوئیں، 1975 میں ایسا آخری بار ہوا تھا۔'' انہوں نے مزید کہا کہ سن 1988 میں جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کیا تو، تعلقات کو مزید معمول پر لانے کی کوشش کی۔
جے شنکر نے کہا کہ سن 1993 اور سن 1996 میں بھارت نے چین کے ساتھ متنازعہ سرحد کو مستحکم کرنے کے لیے دو معاہدے کیے۔ ''تو بات چیت چل رہی ہے۔''
جے شنکر کا کہا تھا کہ سن 2020 میں جب بھارت کووڈ 19 کے سبب لاک ڈاؤن میں تھا، ''ہم نے دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں چینی فوجی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔''
لہذا اس سب کے دوران ہی ''ہمیں دراصل متحرک طور پر جوابی تعیناتی کرنی پڑی، جو ہم نے کی۔ اور پھر ہمارے پاس ایسی صورت حال تھی کہ اس سے ہم کافی فکر مند تھے کہ دونوں جانب فوجی اب بہت قریب ہیں۔ اور ہم نے چینیوں کو خبردار بھی کیا کہ اس طرح کی صورتحال مسائل پیدا کر سکتی ہے اور یقیناً جون سن 2020 کے وسط میں ایسا ہی ہوا بھی۔''
جے شنکر نے کہا کہ چینی فریق نے مختلف مواقع پر مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں لیکن حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی قابل عمل نہیں ہے۔ اور تبھی سے، ''ہم کشیدگی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں ہم جزوی طور پر کامیاب بھی رہے ہیں۔''
جے شنکر نے مزید کہا، ''اب اس صورت حال نے جو کچھ کیا، اس سے ایک طرح سے تعلقات مکمل طور پر متاثر ہوئے، کیونکہ ایک ایسے ملک کے ساتھ نارمل رہنے کی کوشش کرنا بہت مشکل ہے جس نے معاہدے کو توڑا ہو اور جس نے وہ کیا، جو اس نے کر رکھا ہے۔''
دیرینہ سرحدی تنازعہ
لداخ میں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔سرحد پر چار مقامات سے افواج کی مرحلہ وار واپسی کے بعد ایک بار پھر دونوں ملکوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بلند پہاڑوں پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں۔
دونوں ملکوں نے حقیقی کنٹرول لائن کے آس پاس تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور مزید تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ بھی ہے۔