گورنر پنجاب سلمان تاثیر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل
4 جنوری 2011گورنر کے قاتل کا نام ملک ممتاز حسین قادری بتایا گیا ہے، جو کہ پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کا ایک اہلکار ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نےپنجاب کے گورنر کی ہلاکت پر ملک بھر میں سرکاری سطح پر تین روزہ سوگ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں تمام تقریبات منسوخ کرتے ہوئے دو ہفتے کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔
گورنر پنجاب اسلام آباد کے سیکٹر F-6 کی کوہسار مارکیٹ کے ایک ریستوراں میں کھانا کھانے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق ملزم نے انتہائی قریب سے سلمان تاثیر پر حملہ کیا۔ سلمان تاثیر کو شدید زخمی حالت میں قریب ہی واقع فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں سر، سینے اور پیٹ میں نو گولیاں لگیں۔
حادثے کے فوراً بعد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء اور رہنما ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کر دی ہیں جبکہ وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار نے خود کو اسلحے سمیت پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کا موقف ہے کہ اس نے گورنر سلمان تاثیر کو ناموس رسالت کے قانون کو مبینہ طور پر کالا قانون کہنے پر قتل کیا۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ اس بات کی تفتیش کی جائے گی کہ ملزم نے اس قتل کا فیصلہ خود کیا یا یہ قتل کسی کے کہنے پر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے گورنر پنجاب کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان افراد کو گرفتار کرے، جنہوں نے ناموس رسالت سے متعلق قانون کے معاملے پر گورنر پنجاب کے خلاف فتوے دیے تھے، تا کہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود دیگر افراد کا تحفظ کیا جا سکے۔
دریں اثناء ملک کے مختلف حصوں سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور اشتعال میں آ کر توڑ پھوڑ کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں