گولن کو حوالے کرو ورنہ خدا حافظ، ترکی کی امریکا کو تنبیہ
9 اگست 2016امریکا سے کہا گیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فتح اللہ گولن کی وجہ سے قربان نہ کرے۔ ترک وزیر انصاف بیِکر بوزداگ نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا گولن کو انقرہ کے حوالے نہیں کرتا تو وہ ایک ’دہشت گرد‘ کی وجہ سے ترکی کے ساتھ تعلقات قربان کرے گا۔ ترکی کی طرف سے واشنگٹن سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ گولن کو ملک بدر کرے۔ انقرہ ، پینسلوینیا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مذہبی رہنما گولن کو ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے تاہم فتح اللہ گولن نے پندرہ جولائی کی پر تشدد بغاوت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ترک وزیر انصاف نے سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو سے گفتگو میں یہ بھی کہا،’’ گولن کی حوالگی کے معاملے پر ترک عوام میں امریکا مخالف جذبات عروج پر ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ مخالفانہ جذبات نفرت میں نہ تبدیل ہو جائیں۔‘‘ بیکر بوزداگ نے یہ بھی کہا کہ امریکا ایک عظیم ملک ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ ایک عظیم ملک ہی کی طرح عمل کرے گا۔
ترکی نے گولن کی تحریک کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس مذہبی رہنما پر مقدمہ چلانے کے لیے امریکا سے ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن کا موقف ہے کہ اسے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں گولن کے ملوث ہونے کے ثبوت درکار ہیں اور یہ بھی کہ گولن کی ترکی کو حوالگی باضابطہ طریقے سے ہونی چاہیے۔
ترک حکومت نے پندرہ جولائی کی بغاوت کے بعد سے گولن کے حمایتیوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر رکھا ہے۔ بوزداگ کے مطابق اب تک سولہ ہزار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے خلاف مقدمے زیر التوا ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چھ ہزار زیر حراست افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ترک وزیر انصاف نے مزید بتایا کہ لگ بھگ سات ہزار چھ سو چھیاسٹھ افراد ایسے بھی ہیں جو زیر تفتیش ہیں لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
ترکی میں گولن کی تحریک سے وابستگی کے شبے میں ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا گیا ہے۔ ان میں صحت، میڈیا ،عدلیہ، فوج، تعلیم اور سول سروس سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یورپی اقوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ترکی میں حکومتی کریک ڈاون کے دائرہ کار پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔