گینڈے کی ایک نایاب نسل کے بچاؤ کی امید
26 دسمبر 2011ملائیشیا میں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلقہ حکام کے مطابق انہوں نے اس مادہ گینڈےکو 18 دسمبرکو پکڑا تھا اور اب اسے بورنیو جزیرے کے ملائیشیا کی ملکیت حصے میں Tabin والڈ لائف ریزرو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ اس مادہ گینڈے کی عمر دس اور بارہ برس کے درمیان بتائی گئی ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ یہ مادہ جانور اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
بورنیو کے جزیرے کے ملائیشیا میں شامل حصے میں گینڈوں کے تحفظ کے لیے فعال ایک تنظیم BRA کے ڈائریکٹر Junaidi Payne نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہم سب نے سکھ کا سانس لیا ہے، کیونکہ ہمیں اس گینڈے کو پکڑنے میں کامیابی ایک سال تک کوششیں کرنے کے بعد ملی ہے۔‘ اسے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے 2010ء سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’اب ہمارے پاس یہ آخری موقع ہےکہ ہم اس بہت کمیاب نسل کو ناپید ہونے سے بچا لیں‘۔Puntung نامی اس مادہ گینڈے کو BRA اور صباح کے علاقے میں وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ارکان کے ایک مشترکہ آپریشن کے دوران پکڑا گیا۔
جانوروں کی اسی نایاب نسل کے ایک نر گینڈے کو اگست 2008 میں پکڑا گیا تھا۔ اس نر گینڈے کو Tam کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ Payne نے بتایا ہے کہ Tam اور Puntung کو ایک جگہ رکھا گیا ہے اور وہ ایک دوسرے کو پہچاننے کے عمل سے گزر رہے ہیں، ’افزائش نسل کے لیے ان دونوں کی عمریں بہت مناسب ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور ان کے مابین ایک ’خاموش گفتگو‘ شروع ہو چکی ہے‘۔ انہوں نے بتایا، ’گینڈے کی اس نسل کو ناپید ہونے کے شدید خطرات اس لیے بھی لاحق ہیں کہ ان کی مجموعی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے اور یہ جانور کھلے عام اختلاط نہیں کرتے‘۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی تک پھیلے ہوئے وسیع و عریض جزیرے بورنیو میں اس مخصوص نسل کے صرف 30 تا 50 گینڈے پائے جاتے ہیں۔ ان گینڈوں کی آبادی انتہائی کم رہ جانے کی ایک بڑی وجہ ان کا غیر قانونی شکار بھی ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں روایتی دوا سازی کی صنعت میں اس گینڈے کے جسم کے مختلف حصوں کا استعمال انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے، شاید اسی لیے بھی اس جانور کا شکار بہت زیادہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک