1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ: جمہوریت نواز مظاہرین  پر حملہ کرنے والوں کو جیل

22 جولائی 2021

ہانگ کانگ کی ایک عدالت نے جمہوریت نواز مظاہرین پر حملہ کرنے کے جرم میں سات افراد کو قید کی سزا سنائی ہے۔ اس معاملے میں یہ پہلا اہم فیصلہ ہے جس کی وجہ سے شہر میں مزید مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ 

https://p.dw.com/p/3xomg
Hong Kong, Proteste
تصویر: Reuters/E. Su

ہانگ کانگ میں دو برس قبل جمہوریت نواز مظاہرین پر حملہ کرنے والے سات افراد کو جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ حملہ آوروں نے ان افراد کو نشانہ بنایا تھا جو جمہوریت نواز مظاہروں میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے۔ جج نے ان قصورواروں کو سات ماہ سے ساڑھے تین برس کے درمیان کی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

عدالت نے ان افراد کو، ''فسادات برپا کرنے، دانستہ طور پرنقصان پہنچانے یا پھر سازش کی نیت سے زخمی کرنے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔''

جج ایڈی ایپ نے کہا کہ حملہ آوروں نے، ''اجتماعی طور پر پاگل پن کا مظاہرہ کیا'' اس لیے سخت سزا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کی حرکتوں سے کمیونٹی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ان لوگوں نے اجتماعی طور پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور رہائشیوں کو شدید قسم کی دہشت میں ڈالا۔''

دو برس قبل کیا ہوا تھا؟

سن 2019 میں ہانگ کانگ کے 'یوین لانگ علاقے' میں ایک ریلوے اسٹیشن پر سفید کپڑوں میں ملبوس لاٹھیوں سے لیس سینکڑوں حملہ آوروں نے جمہوریت نواز مظاہرین پر اچانک حملہ کر دیا تھا۔ ہانگ کانگ کا یہ علاقہ چین سے قریب سرحد پر واقع ہے اور اسی لیے یہ واقعہ 'یوین لانگ' حملے کے نام سے بھی معروف ہے۔

Hongkong Ausschreitungen Polizei Protest gegen Auslieferungsgesetz
تصویر: picture-alliance/AP/E. Tsang

یہ حملہ اس وقت ہوا جب مظاہرین احتجاج میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے۔ حملہ آوروں نے ریلوے اسٹیشن پر منتظر عام مسافروں اور بعض صحافیوں سمیت تقریبا ً  45  افراد کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مار مار کر  زخمی کر دیا تھا۔ 

  یہ حملے حکومت مخالف مظاہروں کے لیے نکتہ عروج کی حیثیت اختیار کر گئے تھے کیونکہ اس کی وجہ سے پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ آوروں کے ساتھ ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ایسے حالات کو فروغ دینے کے لیے اور حالات کو قابو میں کرنے پر ناکامی کے لیے پولیس پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔

 تاہم پولیس نے اس میں اپنی کسی بھی غلطی سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ چونکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے تھے جس کی وجہ سے پولیس کی تقریبا ًتمام نفری تعینات کرنی پڑی جس کی وجہ سے اس کے پاس عملے کی کمی تھی اور اسی وجہ سے ہر جگہ پر بڑی تعداد میں پولیس کو تعینات کرنا ممکن نہیں تھا۔

اسی برس اپریل میں اس حملے کے حوالے سے پولیس کے کردار کی تفتیش کرنے والے انعام یافتہ صحافی باؤ چوائے کو بھی اس لیے قصوروار قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے حملہ آوروں کا پتہ لگانے کے لیے جو تفتیشی مہم شروع کی تھی اس کے لیے گاڑی کا لائسنس غلط طریقے سے حاصل کیا تھا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی) 

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں