ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں سب سے آگے امریکا
11 دسمبر 2017اسلحہ، بارود، ٹینک اور ڈرون طیارے: 2016ء میں عسکری ساز و سامان اور فوجی خدمات کی مد میں عالمی سطح پر 374.8 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے گئے۔ امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے ’سِپری‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یہ تجارت 2015ء کے مقابلے میں1.9 فیصد زیادہ ہے جبکہ 2002ء کے اعداد و شمار سے اگر اس کا موازنہ کیا جائے، تو یہ اضافہ 38 فیصد بنتا ہے۔
سپری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سو بڑے اسلحہ ساز اداروں میں سے 63 کا تعلق امریکا اور مغربی یورپی ممالک سے ہے۔ اس طرح گزشتہ برس دنیا بھر میں عالمی سطح پر اسلحے کی تجارت میں ان دونوں خطوں کا حصہ تقریباً 82 فیصد بنتا ہے۔ اس تجارت میں سرفہرست امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن ہے، جس نے تقریباً 41 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا، جو 2015ء کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے۔
اس فہرست میں کل 38 امریکی کمپنیوں کے نام ہیں اور انہوں نے کل217 ارب ڈالر کے اسلحے کی تجارت کی۔ جنوبی کوریائی اسلحہ ساز اداروں کی فروخت میں 2015ء کے مقابلے میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔ سو بڑے اسلحہ ساز اداروں کی فہرست میں جنوبی کوریا کی سات کمپنیاں شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری تجربات کی وجہ سے جنوبی کوریا میں اسلحے کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
’اسلحے کی فروخت میں کمی، لیکن کاروبار میں اضافہ‘ مگر کیسے؟
اسلحے کی برآمد بند کریں، مہاجرین کی مدد کریں: جرمن سیاست دان
برازیل اور ترکی کے اسلحہ ساز اداروں کی پیداوار بھی بڑھی ہے جبکہ بھارتی کمپنیوں کے کاروبار میں معمولی سی مندی رہی۔ اعداد و شمار کی عدم موجودگی کی وجہ سے چینی کمپنیوں کی طرف سے تجارت اس رپورٹ میں شامل نہیں کی گئی۔
سپری کا قیام 1966ء میں سویڈش پارلیمان کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد فوجی اخراجات اور اسلحے کی منتقلی کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا تھا۔ تاہم یہ ادارہ 2002ء سے دفاعی کمپنیوں کی جانب سے اسلحے کی تجارت کا ریکارڈ جمع کر رہا ہے۔