ہزارہ کون ہیں اور یہ کس سے فرار ہونا چاہتے ہيں؟
22 ستمبر 2016ہزارہ برادری کو عموماﹰ مذہب کی بنیاد پر طالبان اور دیگر شدت پسند سنی گروہوں کی جانب سے حملوں کا سامنا رہا ہے۔ سن 1996 تا 2001 تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دور میں اس برادری کے خلاف سخت اقدامات نے انہیں ایران اور پاکستان ہجرت پر مجبور کیا تاہم وہاں بھی ان کے خلاف پرتشدد واقعات تھمے نہیں۔
اقوام متحدہ کے سن 2015ء میں جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران میں افغان مہاجرین کی تعداد نو لاکھ اکیاون ہزار ہے، جن میں سے زیادہ تر ہزارہ شیعہ ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی تعداد ڈیڑھ ملین سے زائد ہے۔
اسٹاک ہوم میں سویڈش افغان کمیٹی کے ڈپٹی بورڈ ممبر قاسم حسینی کے مطابق، ’’ہم اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ہم غیر ضروری طور پر پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں دنیا میں بے مقصد بھیجا گیا ہے۔‘‘
قاسم سن 2001ء میں ایک تنہا بچے کے طور پر 15 برس کی عمر میں سویڈن پہنچے تھے اور وہ تب سے وہیں آباد ہیں۔
اس کمیٹی کے مطابق سویڈن پہنچنے والے 70 فیصد تنہا افغان بچے ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس سویڈن پہنچنے والے ایسے افغان بالغ مہاجرین کی تعداد 23 ہزار تھی۔ سویڈن کی مہاجرین سے متعلق ایجنسی تاہم سیاسی پناہ کی درخواستوں کو افراد کی نسل یا گروہ کی بنیاد پر مرتب نہیں کرتی، اس لیے یہ اعداد و شمار سویڈن کی حکومت کے پاس موجود نہیں ہیں۔
حسینی کے مطابق ایران میں ہزارہ برادری کے پاس کسی قسم کی دستاویزات نہیں ہوتيں تاہم اپنی منفرد شکل و صورت اور لباس کی وجہ سے انہیں ہر وقت ملک بدری کا خوف رہتا ہے اور پولیس اہلکار انہیں پکڑ کر ان سے رشوت وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایران میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد دارالحکومت تہران کے نواح میں واقع اینٹوں کی بھٹیوں میں کام کرتے ہیں، جہاں ان مزدوروں کے اہل خانہ بھی فیکٹریوں کے مالکان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان اور افغانستان میں بھی شدت پسندوں کی جانب سے اس برادری کو متعدد مرتبہ دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا ہے۔ رواں برس جولائی میں ہی افغان دارالحکومت کابل میں ایک پرامن مظاہرے کے دوران ہزارہ برادری کو ایک بم دھماکے کا سامنا کرنا پڑا، جس میں کم از کم 80 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔