1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں چاند نظر نہیں آ رہا، آپ وہاں جانے کا پوچھ رہی ہیں

24 اگست 2023

احباب معترض ہیں کہ ہر بات میں پاکستان اور بھارت کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے عمومی حالات، معیشت، اندرونی و بیرونی چیلنجز اور سب سے بڑھ کر ہمارا اور بھارت کا جغرافیائی حجم، قدرتی وسائل اور آبادی سب مختلف ہیں۔

https://p.dw.com/p/4VXhx
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

ایک ہی تاریخ کو وجود میں آنے والے دو پڑوسی ملکوں کا موازنہ اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کا نقطہ آغاز معاشی، جغرافیائی، سیاسی اور اسٹریٹجک لحاظ سے ایک تھا۔ بس یہ ترجیحات کا کھیل اور اپنوں کی مہربانی ہے کہ ایک نے خود کو عالمی طاقتوں کا کھلونا بنا لیا، دوسرا خود ایک عالمی طاقت بن کر ابھر گیا۔

اگر ہم نے خلائی تحقیق کا ادارہ سرے سے کبھی بنایا ہی نہ ہوتا تو اللہ اللہ خیر صلیٰ کہتے، اپنی کم مائیگی پہ رو پیٹ لیتے، بھارت کے چندرما پہ پہنچنے کو انجوائے کرتے، یا رشک و حسد کے مارے دل جلا لیتے کہ کاش ہماری قوم کو بھی یہ لمحہ نصیب ہوتا۔ کڑھن اس بات کی ہے کہ صرف پچاس برس پہلے خلائی تحقیق کے میدان میں ہم اتنے آگے تھےکہ پیچھے پیچھے بھارت ہمارے نشان ڈھونڈ رہا تھا۔ 

1961 میں پاکستان خلائی پروگرام شروع کرنے والے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفئیر ریسرچ کمیشن  (سپارکو)  کی بنیاد رکھی تو اس کو امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ 

سپارکو نے اپنے قیام کے ایک برس کے اندر  جون 1962 میں رہبر ون نامی پہلا راکٹ خلا میں کامیابی سے بھیجا، اس وقت پاکستان پورے ایشیا میں کامیاب خلائی مشن رکھنے والا تیسرا ملک تھا۔ اگرچہ اس مشن میں امریکہ کی مدد شامل تھی لیکن اس  کامیابی نے پاکستانی سائنسدانوں پہ ناسا کے دروازے کھول دیے تھے۔

پاکستان خلائی پروگرام
سپارکو نے اپنے قیام کے ایک برس کے اندر  جون 1962 میں رہبر ون نامی پہلا راکٹ خلا میں کامیابی سے بھیجاتصویر: Tariq Mustafa

جن دنوں پاکستان  رہبر ون کی لانچنگ پہ واہ واہ سمیٹ رہا تھا، ان دنوں بھارت خلائی تحقیقی ادارہ بنانے کا سوچ رہا تھا۔ اسرو نامی بھارتی اسپیس ریسرچ ادارہ  دراصل  سپارکو بننے کے بھی نو برس بعد  1969 میں  باقاعدہ  فعال ہوا۔ یہ وہی اسرو ہے، جس نے چاند پہ بھارت کا خلائی مشن کامیابی سے اتارا ہے۔

اپالو سیریز میں معاونت سے سکوت تک، پاکستان کا خلائی پروگرام

جب ہم خلائی میدان میں بھارت سے  کم از کم ایک عشرہ آگے تھے، پھر ایسا کیا ہوا کہ سپارکو مقابلے کے میدان سے ہی باہر ہو گیا؟ میں نے سپارکو کے ایک سابق سائنسدان سے بات کی، سوچا کچھ ٹیکنکل سا جواب ملے گا، کہنے لگے ہمیں عید کا چاند نظر نہیں آتا، آپ چاند پہ جانے کا پوچھ رہی ہیں۔

 پھر اپنا دامن بچا کر بات مختصر کر دی کہ معمولی سی گوگل سرچ سے پتا چل جائے گا کہ پاکستان کے اسپیس ریسرچ ادارے کی سربراہی گزشتہ کئی برسوں سے کس کے پاس ہے؟  سپارکو جیسے اور جتنے بجٹ میں چلایا جا رہا ہے، اس پہ تو ہم سیٹلائیٹ پروگرام چلا لیں یہی بڑی بات ہے۔

چاند پہ جانے کا مشن صرف سائنس ہی نہیں، نیو ورلڈ آرڈر میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بھارت کا ایک علامتی اظہار بھی ہے۔ بلاشبہ اس وقت بھی بھارت میں لاکھوں افراد غربت کی لکیر تلے جی رہے ہیں لیکن مون مشن نے بحیثیت مجموعی بھارتی عوام کو بھارت سے اپنا مستقبل اور اپنی تقدیر منسلک رکھنے کی  ایک وجہ دی ہے۔

 ہمارے سپارکو کو  پہلا دھچکا تو ستر کی دہائی میں ہی لگ گیا تھا، جب ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان چھوڑ کر چلے گئے، اب وہ  چھوڑ کر کیوں گئے، ہمارے مذہبی جنون کے ثمرات پہ درجنوں تسلی بخش تحاریر  آن لائن مل جائیں گی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد کئی بڑے سائنسدانوں نے سپارکو کو سنبھالا لیکن کچھ ہی عرصے میں ہماری ریاستی ترجیحات بدل گئیں۔

ریاست کے کرتا دھرتاوں کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ آسمان کے تارے ٹٹولنے سے بہتر ہے اپنی دنیا و آخرت کی فکر کی جائے کیونکہ سپارکو سے زیادہ فنڈنگ مدارس اور جہاد کے نام پہ ملتی ہے، جس میں ہلدی لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔

سپارکو کی گم نامی کے پیچھے ہماری ریاستی عدم توجہی، سیاسی عدم استحکام، محدود بجٹ اور  پیچیدہ بین الاقوامی اسٹریٹجک تعلقات کا بھی ہاتھ ہے۔ یوں بھی جب اسپیس ٹیکنالوجی میں جدت کا دور آیا، پاکستان اس وقت سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کے عفریت میں گھرا ہوا تھا۔

اب تک پاکستان کمیونیکیشن اور ریموٹ سینسنگ کے کئی سیٹلائیٹ لانچ کر چکا ہے جبکہ دو ہزار گیارہ میں سپارکو نے اسپیس پروگرام 2040 کا آغاز کیا، جس کے تحت جیو سیٹلائیٹ اور لو ارتھ سیٹلائیٹ لانچنگ پلان کا حصہ ہے۔ یہ سیٹلائیٹ مقامی طور پہ بنے بھی ہوں لیکن ان کی لانچنگ کی سہولت پاکستان میں موجود نہیں، جس کے لیے ہم دیگر ممالک کے محتاج ہیں۔

جدید اسپیس اسٹیشن کے کچھ پرزے ہیں کچھ نہیں اور کچھ کے لیے اللہ کے بعد چائنا پہ بھروسہ ہے،  ایسے حالات میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے جب دو ہزار انیس میں پاکستانی آسٹرونوٹ کو چاند پہ بھیجنے کی بات کی تھی تو اسے بعض حلقوں نے انٹرنیشنل گپ قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم چاند پہ پہنچتے پی ٹی آئی کی حکومت پہلے گھر اور پھر جیل پہنچ گئی۔

جو ادارہ پچھلے تیس چالیس برسوں سے  پاکستان اولمپک فیڈریشن کی طرح ایک کونے میں آٹومیٹک موڈ پہ چلتا چھوڑ دیا گیا ہے، اس سپارکو میں کون آیا، کون گیا، کیا نئی جدت لائی گئی، کون سی نئی تحقیق ہوئی، سپارکو چلا کون رہا ہے، سپارکو میں ہو کیا رہا ہے، یہ سب جاننے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ سپارکو اور پاکستان کے دیگر سائنٹیفک ریسرچ ادارے ملک کے نوجوان سائنسدانوں کو متوجہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہم سپارکو اور ریاستی اداروں سے ہلال پہ سبز ہلالی پرچم لہرانے کا مطالبہ نہیں کر رہے نا ہی مریخ سر کرنے کا کوئی پریشر ہے لیکن صرف اتنا پوچھ رہے ہیں کہ کیا آگے بھی پاکستان کا اسپیس پروگرام ایک بلبلے میں بند، چین کی جانب نظریں گاڑے اور یونیفارم پرسنلز کی  پالیسوں کے مطابق چلے گا یا سپارکو کے کسی پلگ میں سپارک باقی ہے؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔