ہنزہ میں چار گاؤں مکمل طور پر زیر آب
14 مئی 2010حکام کے مطابق جمعے کے روز جھیل کی لمبائی28 کلومیٹر جبکہ اس میں پانی کی سطح 325 فٹ کی بلندی تک پہنچ گئی ہے اس کے نتیجے میں اب تک 4 گاؤں مکمل طور پر زیر آب آ چکے ہیں جبکہ گلگت اور گوجال نامی گاؤں سے آبادی کے انخلاءکا سلسلہ جاری ہے۔
ان علاقوں سے محفوظ مقام کی طرف نقل مکانی کرنے والے لوگوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد ان کی بحالی کےلئے اقدامات کریں۔ جھیل کے حجم میں اضافے کے سبب پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم کا ایک بڑا حصہ بھی زیر آب آ گیا ہے جس سے نہ صرف چین اور پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے بلکہ اندرون ملک اس علاقے کے آرپار بسنے والے افراد بھی اپنے علاقوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس صورتحال پر قابو پانے کےلئے سرکاری سطح پر کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک مقامی افسر عبداللہ جان نے بتایا کہ ایک بڑا پل جھیل کے پانی کی نذر ہو چکا ہے اور اب پانی کی سطح نیچے آنے کے بعد ہی سڑک کی بحالی کا کام شروع ہو سکے گا۔
ادھر گلگت میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مصنوعی جھیل کے سبب ممکنہ تباہی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غالباً اسی سبب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعے کے روز متاثرہ علاقے کا دورہ بھی کرنا تھا جو بعد ازاں موسم کی خرابی کے سبب ملتوی کر دیا گیا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان بریگیڈیئر ساجد نعیم کا کہنا ہے کہ جھیل سے پانی کے محفوظ اخراج کےلئے اسپل وے کا تعمیراتی کام جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق پانی کے بہاؤ میں آنے والے مزید ممکنہ مقامات سے بھی لوگوں کی نقل مکانی کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور اس مقصد کےلئے محفوظ مقامات پر ریلیف کیمپ قائم کئے جا رہے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ