ہیروئن کے اسمگلروں نے افریقہ کا رخ کرلیا
31 جولائی 2011یو این کے دفتر برائے انسداد جرائم و انسداد منشیات UNDOC کے مطابق کئی افریقی ممالک کی حکومتیں کمزور ہیں اور ہیروئن کی اسمگلنگ کی مناسب روک تھام کی قابلیت نہیں رکھتیں۔
افغانستان میں کاشت کی جانے والی افیون سے متعلق تیار کی گئی اس عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ حالیہ عرصے کے دوران پکڑی گئی منشیات اور اسمگلروں کی گرفتاریوں سے یہ اشارے ملے ہیں کہ افریقی اسمگلر، بالخصوص مغربی افریقی نیٹ ورکس نے پاکستان اور پھر مشرقی افریقہ کے راستے افغانستان کی افیون اسمگل کرنے کے سلسلے کو دوام دے رکھا ہے، جو یہاں سے پھر یورپ اور دیگر خطوں میں لے جائی جاتی ہے۔‘‘
افغانستان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ شورش زدہ ریاست دنیا بھر میں افیون کی پیداوار کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ افیون، ہیروئن کی تیاری میں خام مال کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2009ء میں افغانستان میں پیدا کی گئی افیون کا 40 فیصد پاکستان کے راستے دنیا بھر کو سپلائی کیا گیا، جو ہیروئن کے لگ بھگ 68 ارب ڈالر سالانہ تجارت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک تنزانیہ اور کینیا میں رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ہیروئن کی دو بڑی کھیپیں پکڑی گئیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق چونکہ ان افریقی ریاستوں میں بدعنوانی بڑھتی جارہی ہے، حکومتی گرفت انتہائی کمزور اور غربت عام ہے، اسی لیے یہاں سے سمندر کے راستے ہیروئن اسمگل کرنا قدرے آسان خیال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ 80ء کی دہائی میں بھی افریقہ ہی یورپ تک منشیات اسمگل کرنے کا اہم نیٹ ورک تھا مگر بعد میں وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک کے راستوں سے بھی اسمگلنگ بڑھ گئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں افغانستان میں کاشت کی گئی 150 ٹن افیون یورپ تک، 120 ٹن ایشیائی ممالک تک، اور 45 ٹن افریقہ تک پہنچی تھی۔ UNDOC کے مطابق ایک عام کاشتکار کے مقابلے میں منظم جرائم میں ملوث اسمگلر، افیون سے ہیروئن بنانے والے اور سمگلنگ روٹس پر موجود مسلح حلقے اس کاروبار سے سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالر حاصل کرتے ہیں۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت:شامل شمس