ہیومن رائٹس واچ کو بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش
25 جولائی 2011آج نیویارک میں جاری ہونے والے اپنے بیان میں انسانی حقوق کے نگران ادارے نے کہا کہ قصور وار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد پر طویل عرصے سے جاری زیادتیوں سے چشم پوشی کرنے کا عمل ختم ہو سکے۔
دسمبر 2010 میں ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ’’ٹریگر ہیپی‘‘ نامی رپورٹ میں بی ایس ایف کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، من مانی گرفتاریوں، تشدد اور بدسلوکی کے واقعات کا ذکر کیا گیا تھا۔ رپورٹ جاری ہونے کے بعد بھارتی حکام نے بنگلہ دیشی عہدیداروں کو یقین دلایا کہ ان ہلاکتوں کو روکا جائے گا۔
اگرچہ فائرنگ کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم بنگلہ دیش کی ایک غیر سرکاری تنظیم ادھیکار نے جنوری کے بعد بارڈر فورس کے ہاتھوں کم از کم 17 مبینہ ہلاکتوں اور انتہائی بدسلوکی کے دیگر واقعات کا ذکر کیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا مناکشی گنگولی نے کہا، ’’حکومت نے بعض مثبت احکامات جاری کیے ہیں مگر اسے چاہیے کہ وہ زیادتیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد کو گرفتار کرے تاکہ فوجیوں کو احساس ہو کہ انہیں کارروائیاں کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہے۔‘‘
30 جون کو بی ایس ایف فورسز نے غلطی سے سرحد عبور کر کے بھارت میں داخل ہونے والے ایک 25 سالہ چرواہے میزان الرحمٰن کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کی لاش دریائے سانیازن میں بہا دی۔ اسی طرح 2 جون کو ادھیکار نے دو ایسے واقعات کا حوالہ دیا، جن میں بی ایس ایف کے اہلکاروں نے مویشیوں کے دو بنگلہ دیشی اسمگلروں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔
اگرچہ بارڈر سیکورٹی فورس کا کام اسمگلروں، مشتبہ افراد اور عسکریت پسندوں جیسے عناصر کو سرحد عبور کرنے سے روکنا ہے مگر ہیومن رائٹس واچ کی تحقیقات کے مطابق سرحد عبور کرنے والوں میں زیادہ تر چرواہے، کسان یا مزدور شامل ہوتے ہیں۔
میناکشی گنگولی نے کہا کہ اگرچہ بھارتی حکومت سری لنکا کے پانیوں میں داخل ہونے والے بھارتی ماہی گیروں پر حملوں کے خلاف خوب واویلا مچاتی ہے مگر اس نے اپنی سرحدی فورسز کی جانب سے بنگلہ دیشی باشندوں کے خلاف جرائم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی