1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کِم جونگ اُن کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ہیکرز نے چُرا لیا

افسر اعوان خبر رساں ادارے
11 اکتوبر 2017

شمالی کوریا کے کمپیوٹر ہیکرز نے جنوبی کوریا کی فوج کی سینکڑوں دستاویزات چُرا لی ہیں۔ جنوبی کوریا کے ایک رُکن پارلیمان کے مطابق ان دستاویزات میں شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/2lceD
Symbolbild Cyber Security
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi

سیئول حکومت کے مطابق شمالی کوریائی ہیکرز نے جن معلومات تک رسائی حاصل کی ان میں بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات بھی شامل ہیں۔ جنوبی کوریا کی حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رُکن پارلیمان ای چیول ہی نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ شمالی کوریا کے ہیکرز نے گزشتہ برس ستمبر میں سیئول کے ملٹری ڈیٹا سنٹر تک رسائی حاصل کی اور 235 گیگا بائٹ خفیہ ڈیٹا چوری کیا۔ انہی خفیہ دستاویزات میں کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں شمالی کوریا اور امریکا کے مشترکہ جنگی منصوبوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں برس مئی میں جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی ایک تفتیشی ٹیم اعلان کیا تھا کہ یہ ہیکنگ شمالی کوریا کی طرف سے کی گئی تھی۔ تاہم اُس وقت یہ تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں کہ اس ہیکنگ حملے میں کس طرح کا ڈیٹا چوری ہوا۔ دوسری طرف پیونگ یانگ حکومت نے اپنے سرکاری میڈیا میں سائبر حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے سیئول حکومت پر تنقید کی تھی کہ وہ آن لائن حملوں کا نشانہ بننے کے جھوٹے دعوے کر رہی ہے۔

جنوبی کوریا کی نیشنل اسمبلی کی دفاعی امور کی کمیٹی کے رُکن ای چیول ہی کا کہنا تھا کہ جو ڈیٹا چوری کیا گیا اس کے 80 فیصد کی شناخت ابھی تک نہیں ہو پائی تاہم توقع یہی ہے کہ اس میں کوئی ایسا ڈیٹا شامل نہیں تھا جو انتہائی خفیہ انٹیلیجنس معلومات پر مبنی ہو۔

اس رکن پارلیمان کے مطابق چوری شدہ ڈیٹا میں تاہم ایسی معلومات شامل تھیں کہ جنگ کی صورت میں شمالی کوریا کی اعلیٰ قیادت کے ارکان کی نقل وحرکت پر کیسے نگاہ رکھی جانی ہے اور کس طرح ان کے چھپنے کے خفیہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کر کے ان کا خاتمہ کیا جانا ہے۔

Symbolbild Cyberangriff
ہیکرز نے گزشتہ برس ستمبر میں سیئول کے ملٹری ڈیٹا سنٹر تک رسائی حاصل کی اور 235 گیگا بائٹ خفیہ ڈیٹا چوری کیاتصویر: Colourbox

تاہم جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے حکام نے رکن پارلیمان کی طرف سے فراہم کردہ اس معلومات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ا س کی وجہ اس معاملے کی حساسیت کو قرار دیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید