یروشلم کے کسی بھی حصے سے ممکنہ اسرائیلی دستبرداری اب مشکل تر
2 جنوری 2018نئی دستوری ترمیم کے بعد یروشلم شہر کے کسی بھی حصے سے اسرائیل کی ممکنہ دستبرداری کو پارلیمنٹ کی منظوری سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ ایسا پہلے بھی تھا لیکن تب نصف سے زائد اراکین کی حمایت درکار تھی لیکن اب اس کے لیے کم از کم تین چوتھائی اراکین کی منظوری لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی زخمی، ایک ہلاک
امریکی فیصلہ: ایک سو برس بعد فلسطینیوں پر ایک اور کاری وار
امریکا کے ساتھ امن کوششوں کا حصہ نہیں بنیں گے، محمود عباس
یروشلم کی حیثیت، اقوام عالم نے امریکی فیصلہ مسترد کر دیا
اسرائیل کی پارلیمنٹ کنیسٹ کہلاتی ہے۔ کنیسٹ کی کُل نشستیں 120 ہیں۔ نئی دستوری ترمیم کے بعد یروشلم کے کسی بھی حصے کو ’کسی غیر ملکی فریق‘ کے حوالے کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں 61 کی بجائے 80 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت حزب البیت الیہود یا Jewish Home Party نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں اِس دستوری ترمیم کے حق میں چونسٹھ ووٹ ڈالے گئے اور اس کی مخالفت میں چوّن ووٹ پڑے۔ اسرائیل کی بڑی سیاسی جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ اسحاق ہرزوگ ( Isaac Herzog) کا کہنا ہے کہ جیوئش ہوم پارٹی اسرائیل کو ایک بڑی تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
حزب البیت الیہود کے سربراہ نفتالی بینیت کا کہنا ہے کہ یروشلم کے کسی بھی حصے سے دستبرداری کسی ایک یہودی کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی یہودی قوم کے ہاتھ میں ہے بلکہ اس کا فیصلہ اب اسرائیلی پارلیمنٹ کرے گی۔ کئی دیگر سخت گیر اراکین پارلیمنٹ بھی اس دستوری ترمیم کے حق میں تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معطل شدہ امن مذاکرات میں سب سے مشکل مسئلہ یروشلم کے کنٹرول کا ہے۔ مستقبل کی فلسطینی ریاست یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے پر مصر ہے جبکہ اسرائیل اس شہر کو پہلے ہی اپنا دارالحکومت قرار دے چکا ہے۔
مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے سن 1967 کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی سیاسی جماعت مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو بھی اسرائیل میں ضم کرنے کی کوشش میں ہے۔