1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

یمن: صدر منصور ہادی نے استعفی دے دیا

7 اپریل 2022

یمن کے صدر عبد الربہ منصور ہادی نے اپنے اختیارات صدارتی قیادت کی کونسل کو منتقل کر دیے ہیں اور نائب صدر علی محسن الاحمر کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ کونسل مذاکرات کی قیادت کرے گی۔  

https://p.dw.com/p/49ZUp
Tunesien | Jemenitischer Präsident Abed Rabbo Mansur Hadi
تصویر: Xinhua/imago images

یمن کے صدر عبد الربہ منصور ہادی نے سات اپریل جمعرات کو اپنے اختیارات اس نئی صدارتی قیادت کی کونسل کو سونپ دیے، جسے ''عبوری مدت'' کے دوران حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ منصور ہادی نے نائب صدر علی محسن الاحمر کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا۔

ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں صدر منصور ہادی نے کہا کہ نو تشکیل شدہ ادارہ ملک میں برسوں سے جاری تنازعے کو ختم کرنے کے لیے حوثی باغیوں کے ساتھ مستقل جنگ بندی اور سیاسی تصفیہ کے لیے مذاکرات کی قیادت کرے گا۔

یمن 2014 کے اواخر سے ہی سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان تباہ کن لڑائی سے دو چار ہے۔ تاہم حال میں فریقین میں جنگ بندی کاایک معاہدہ ہوا اور اس کے تحت اس دیرینہ تنازعے کے سیاسی حل کی کوششیں بھی شروع کی جا رہی ہیں۔

یمن میں نازک جنگ بندی برقرار ہے

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی سے یمن میں، ''ہفتے کے روز سے، جو دو ماہ کی ملک گیر جنگ بندی شروع ہوئی ہے، اس کی وجہ سے تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے۔'' تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بہت نازک ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''کچھ معاندانہ فوجی سرگرمیوں کی اطلاعات بھی ہیں، خاص طور پر معارب کے آس پاس، جو تشویشناک ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ بندی ''ایک طرح سے اہم اور خطرناک دونوں '' صورت حال کی نمائندگی کرتی ہے۔

Jemen Huthi-Rebellen in Sanaa
تصویر: imago images/Xinhua

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ یہ جنگ بندی ایک اہم قدم ہے، لیکن ایک نازک قدم بھی ہے۔ بہر حال، ہمیں اس موقع کا ممکنہ استعمال احسن طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ بندی ہمیں تنازعات کو ختم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ ''

ماہ رمضان کے آغاز پر سعودی اتحاد کی حمایت یافتہ منصور ہادی کی یمنی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پا یا تھا۔

حوثی باغی گزشتہ ایک برس سے توانائی کی دولت سے مالا مال صوبے معارب کو حکومتی دستوں سے چھیننے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن صنعا کی حکومت کے لیے سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی حمایت نے انہیں اس میں ناکام بنا دیا ہے۔

اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ جنگ بندی سیاسی حل میں مدد گار ہو گی

ہینس گرنڈبرگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس جنگ بندی معاہدے کی نگرانی اقوام متحدہ نہیں کر رہا ہے اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ داری ''خود فریقین پر عائد'' ہوتی ہے۔ البتہ اقوام متحدہ دو ماہ کے معاہدے پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایسا میکنزم تیار کرنے پر کام کر رہا ہے، جس سے اس میں شامل تمام افراد کو برسوں سے جاری تنازعے کے سیاسی حل کی طرف آنے کا موقع ملے گا۔

جنگ بندی معاہدہ حدیدہ کی بندرگاہ تک ایندھن کی آمد اور صنعا کے اندر اور باہر مسافروں کی پروازوں کی اجازت دیتا ہے۔ یہ دونوں علاقے باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قلت سے قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہاں تک کہ ہسپتالوں کو بھی بند کرنا پڑا۔ 

یمن کا یہ تنازعہ بنیادی طور پر ریاض اور تہران کے درمیان کی ایک پراکسی جنگ ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ستمبر 2014 میں حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر مارچ 2015 میں سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد بھی یمن کی حکومت کی بحالی کی کوششوں میں شامل ہو گیا۔

اس کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ، جن میں سے ہزاروں عام شہری ہیں، مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں مزید بے گھر ہو چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی کو اس وقت شدید بھوک کا سامنا ہے اور یہ کرہ ارض کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک بن چکا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید