یورو کرنسی بھنور میں، ڈوئچ مارک کی یاد تازہ
7 دسمبر 2011جرمن عوام کا خیال ہے کہ ان کی پسندیدہ کرنسی ڈوئچ مارک کے دور میں سارے ملک میں زندگی آسان اور سستی تھی۔ جب سن 2002 میں یورو کرنسی نوٹ اور سِکے متعارف کروائے گئے تو عام آدمی کی زندگی متاثر ہو ئی تھی۔ یورو کے اجراء کے بعد سے زندگی کا ہر شعبہ مہنگا ہو گیا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تاجروں نے یورو کی آمد کے بعد اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی تھیں جب کہ حقیقت میں انہیں ان قیمتوں کو کم کرنا تھا کیوکنہ ایک یورو تقریباً 1.96 مارک کے براربر تھا۔ اسی باعث یورو کی مناسبت سے لوگ مزاقاً کہتے تھے یورو ٹوئرو۔ جرمن زبان میں مہنگے کے لیے Teuer (ٹوئر) استعمال کیا جاتا ہے اور صارفین یورو کو ٹوئرو یغنی مہنگا کردینے والا کہنا شروع کردیا تھا۔
یورو کے استعمال کو دس سال کا عرصہ ہونے کو ہے اور یہ کرنسی ان دنوں انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ کسادبازاری کے بعد بھی اس کی ساکھ گردش میں ہے۔ اب یورپی قرضوں کے وسیح حجم سے جنم لینے والے مالیاتی بحران نے یورو کرنسی کی کمر کو دہرا کر دیا ہے۔ مختلف ملکوں کو دیے گئے امدادی بیل آؤٹ پیکج بھی صورت حال کو بہتر بنانے سے قاصر ہیں۔
جرمنی میں رائے عامہ کے ایک نئے جائزے میں شریک افراد کی نصف تعداد نے سابقہ کرنسی کو واپس لانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جرمن عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ یورو نے جرمن اقتصادیات کو ڈوئچ مارک سے زیادہ استحکام دیا ہے۔ اس وقت بھی 80 فیصد جرمن برآمدات کی خرید یورو کرنسی میں کی جاتی ہے۔ یورو کرنسی کی وجہ سے جرمن سیاحوں کو امریکہ کی طرف سفر قدرے آسان دکھائی دیتا ہے۔ جرمن ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یورو کو اگر دوبارہ استحکام حاصل ہوتا ہے تو اس باعث دیگر یورپی اقوام بھی اپنی معیشتوں کو بہتر خطوط پر استوار کر سکیں گی۔
یورو کرنسی کو عدم استحکام کا سامنا ضرور حاصل ہے لیکن جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس کی بہت بڑی حامی ہیں۔ ان کا حالیہ دنوں میں کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ یورو ان حالات میں بھی استحکام سے خالی نہیں ہے۔ میرکل کے خیال میں ماضی کے مقابلے میں اب یورو کرنسی بہتر حال میں ہے اور اس کی قدر بھی بہت بہتر ہو چکی ہے۔ میرکل یورو کی حمایت میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اس کرنسی کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی شرح بہتر ہونے کے علاوہ روزگار کی منڈی کے حالات میں بہتری سے جرمنی میں مزید خوشحالی آئی ہے۔
یورو زون کو بیک وقت بارہ ملکوں میں سن 2002 میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اس وقت تقریباً تین سو ملین آبادی نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ آج یورو کرنسی استعمال کرنے والے ملکوں کی تعداد سترہ ہو چکی ہے اور ان ملکوں کی مجموعی آبادی کا حجم 330 ملین کے لگ بھگ ہے۔ ابھی تک یورپی مرکزی بینک کی کڑی نگرانی کی وجہ سے یورو کو بہت زیادہ افراط زر کا سامنا نہیں ہے اور اب بھی افراط زر کی اوسط شرح دو فیصد کی سطح سے کم ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک