1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ آنے والے سبھی مہاجرین کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ

شمشیر حیدر
7 جنوری 2017

چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے نائب سربراہ اور یورپی پارلیمان کے رکن مانفریڈ ویبر نے مطالبہ کیا ہے کہ یورپی ڈیٹا بیس کی مدد سے گزشتہ تین برسوں کے دوران یورپ آنے والے ہر مہاجر کی از سر نو جانچ پڑتال کی جائے۔

https://p.dw.com/p/2VRSg
Deutschland Flüchtlinge Datenerfassung
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Müller

جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کے مطابق مانفریڈ ویبر نے یورپ میں سکیورٹی اور مہاجرین کے بحران سے متعلق ایک دس نکاتی منصوبہ بھی تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ یورپی ممالک کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں یورپ آنے والے تمام مہاجرین اور تارکین وطن کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جائے۔

ترکی مہاجرین کو شہریت دے گا، ایردوآن

مانفریڈ ویبر یورپی پارلیمان کے رکن بھی ہیں اور وہ اپنی تجاویز اگلے ہفتے یورپی پارلیمان کے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کریں گے۔ اس منصوبے میں انہوں نے یہ تجویز بھی شامل کی ہے کہ تمام یورپی ممالک مہاجرین سے متعلق اعداد و شمار مرکزی سطح پر یکجا کریں اور یہ ریکارڈ یورپی پولیس ’یوروپول‘ کے پاس موجود ہو اور اس ڈیٹا بیس میں ہر ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے تیار کردہ ’خطرناک افراد کی فہرست‘ بھی شامل کی جائے۔

اسی دوران کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو سے ہی وابستہ ایک اور سیاست دان شٹیفان مائر نے اپنی جماعت کا ایک دیرینہ مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد دو لاکھ سالانہ تک محدود کر دی جائے۔

مائر کا کہنا تھا کہ ملک میں مہاجرین کی سالانہ حد مقرر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ان کے سماجی انضمام کو ممکن بنایا جا سکے۔ مائر کے مطابق اس سال ایسے تارکین وطن کی تعداد بھی دُگنی ہو جائے گی جنہیں لازمی طور پر ملک چھوڑ کر جانا ہو گا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین کی تعداد مقرر کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ 2017ء جرمنی میں انتخابات کا سال بھی ہے۔ میرکل کی سیاسی پارٹی سی ڈی یو اس سال بھی سی ایس یو کے اتحاد کے ساتھ انتخابات میں شریک ہو گی۔ ماہرین کے مطابق دونوں جماعتوں کے مابین ایسے اختلافات سے اس سیاسی اتحاد کی انتخابی مہم بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

مہاجرین کا بحران، جرمنی میں رائے بدلتی ہوئی