یورپ خطرہ بنا تو بیلسٹک میزائلوں کی رینج بڑھا دیں گے، ایران
26 نومبر 2017فرانس نے ایرانی میزائل پروگرام کے حوالے سے ’بے لچک اور سخت‘ مذاکرات کے آغاز کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس کے مطابق یہ مذاکرات تہران کے ساتھ سن دو ہزار پندرہ میں ہونے والے جوہری معاہدے سے ہٹ کر ہونے چاہییں۔
دوسری جانب ایران متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ایران کی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے، ’’ اگر ہم نے اپنے میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر رکھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ہم ایک اسٹریٹیجک نظریے کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘
اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ابھی تک ہمیں یہ محسوس ہوا ہے کہ یورپ ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے تو ہم نے اپنے میزائلوں کی رینج بھی نہیں بڑھائی۔ لیکن اگر یورپ خود کو ہمارے لیے خطرہ بنانا چاہتا ہے تو ہم اپنے میزائلوں کی رینج بھی بڑھا دیں گے۔‘‘
ایران کے بیلسٹک میزائل کس کس کے لیے خطرہ ہیں؟
رواں ماہ کے آغاز میں امریکا نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یمن کے حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کر رہا ہے اور انہوں نے اسی میزائل سے سعودی عرب پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ امریکا کا اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس حوالے سے تہران کی جواب دہی ہونی چاہیے کیوں کہ وہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ دوسری جانب ایران اس الزام کو مسترد کرتا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو اسلحہ اور میزائل فراہم کر رہا ہے۔
جنرل سلامی کا اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’یمن کی مکمل ناکہ بندی کی جا چکی ہے، ہم نے انہیں کیسے میزائل دے دیے؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ایران نے ہی یمن میں میزائل بھیجے ہیں تو یہ پھر ان کی (سعودی اتحاد) کی نااہلی ہے لیکن ہم نے انہیں میزائل نہیں دیے۔‘‘ جنرل سلامی کا کہنا تھا کہ حوثی خود اپنے میزائلوں کی رینج بڑھانے اور ان میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق قبل ازیں ایران نے شام کے حوالے سے بھی ایسے ہی بیانات جاری کیے تھے کہ ان کے فوجی یا جنگجو اس سرزمین پر موجود نہیں ہیں لیکن بعد ازاں اقرار کیا گیا کہ وہ صدر اسد کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے ایرانی بیلسٹک میزائل خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے علاوہ امریکی فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکا اور خطے میں موجود اس کے اتحادیوں کے اسی حوالے سے خدشات ہیں۔ واشنگٹن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر فیلو مائیکل ایلیمن کا کہنا ہے، ’’ایران اپنے میزائلوں پر بڑے وار ہیڈ لگا سکتا ہے۔ اس میں تبدیلی کرنا بہت ہی آسان ہے۔‘‘
ایرانی پارلیمان نے میزائل پروگرام کا بجٹ بڑھا دیا
ایران نے اپنا میزائل پروگرام چلانے کے لیے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی خریدی تھی۔ شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اسے کیش میں رقم فراہم کی گئی تھی۔
واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز سے منسلک تجزیہ کار بیہنام بین تالبلیو کا کہنا ہے، ’’ایران اپنے میزائلوں کو خطے میں دباؤ اور خوف کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ایک محفوظ اسلامی جمہوریہ، جسے کسی قسم کو خوف نہیں، وہ پراکسی جنگوں اور بیرون ملک مہم جوئی میں ملوث ہو گی، جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔‘‘