’یورپ کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش‘ ، جرمن وزیر
22 مارچ 2014یہ دورے ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہے ہیں، جب روس یوکرائن کے علاقے کریمیا کو باقاعدہ وفاق روس کا حصہ بنانے کے بعد سے وہاں اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے یوکرائن کے وزیر اعظم آرسینی یاتسینیُوک کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ روس نے کریمیا میں آزادی کے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے انعقاد کے ذریعے ’یورپ کو تقسیم کرنے کی کوشش‘ کی ہے اور جرمنی اس کی مذمت کرتا ہے۔ شٹائن مائر نے کہا:’’کریمیا میں ہونے والا ریفرنڈم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یورپ کو پارہ پارہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کے مطابق بین الاقوامی برادری کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ یوکرائن اور روس کا بحران یورپ میں کسی نئی تقسیم کا باعث نہ بنے۔ شٹائن مائر نے امید ظاہر کی کہ سلامتی اور تعاون کی یورپی تنظیم او ایس سی ای کے مبصرین اگلے چند روز کے اندر اندر یوکرائن پہنچ جائیں گے اور عدم کشیدگی کی کوششوں میں مدد دیں گے۔ اگرچہ روس نے بھی کافی پس و پیش کے بعد اس مبصر مشن کی قرارداد کی حمایت کر دی تھی تاہم وہ اس مشن کے دائرے میں کریمیا کا علاقہ شامل نہ ہونے کو زمینی حقائق تسلیم کیے جانے کے مترداف قرار دے رہا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں یوکرائن کے وزیر اعظم یاتسینیُوک نے توانائی کی محفوظ فراہمی کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ملک کو یورپ کی جانب سے گیس کی ضرورت ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ جرمنی ممکنہ طور پر یوکرائن کی مسلح افواج کو جدید اور مستحکم بنانے میں تعاون کر سکتا ہے۔
شٹائن مائر نے بعد ازاں عبوری صدر اولیکزانڈر تُرشینوف کے ساتھ بھی ملاقات کی اور پھر مشرقی یوکرائن کے شہر ڈونیٹسک کے لیے روانہ ہو گئے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کی صورت میں امیر صنعتی اقوام کے گروپ جی سیون کے کسی رکن ملک کا کوئی سربراہِ حکومت پہلی مرتبہ کییف میں عبوری صدر اولیکزانڈر تُرشینوف سے مل رہا ہے، جنہوں نے ابھی گزشتہ مہینے ہی وکٹور یانوکووِچ کی روس نواز حکومت کے خاتمے کے بعد کاروبارِ حکومت سنبھالا تھا۔
مغربی دنیا سے اپنے حلیف ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے یک جہتی کے یہ دورے یوکرائن کے لیے خاصی اہمیت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت، جب اُسے اپنے بڑے ہمسائے روس کی جانب سے کئی طرح کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے یورپ کی جانب سے یک جہتی کی اب تک سب سے بڑی علامت جمعہ اکیس مارچ کو دیکھنے میں آئی تھی، جب برسلز میں یورپی یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے۔ یہ وہی سمجھوتہ تھا، جسے یوکرائن کی سابقہ ماسکو نواز حکومت کی طرف سے رَد کر دیا گیا تھا۔ اس حکومتی اقدام کے بعد تین ماہ تک خونریز احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے اور بالآخر بائیس فروری کو یہ ماسکو نواز حکومت ختم ہو گئی تھی۔