یورپ کی طرف ہجرت میں ایک بار پھر تیزی، روٹ تبدیل
10 اکتوبر 2021یورپ کورونا کی وبا کی چار لہروں سے کسی طرح نمٹ چکا ہے اور بہت سے یورپی باشندوں کے لیے روزمرہ زندگی اب کافی حد تک معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پُر ہجوم مقامات پھر سے عوامی دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔ کئی مقامات پر ماسک پہننے کی پابندی بھی ختم ہو گئی ہے۔ نئے لاک ڈاؤن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی یورپی ممالک میں ویکسینیشن کی شرح بلند ہونے کے سبب مستقبل میں بہتر صورتحال کی امید بڑھ گئی ہے۔ وبائی امراض کے پھیلاؤ کے دوران یورپی سرحدوں کی بندش اور دنیا بھر میں کورونا سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے جانے والے سخت اقدامات سے یورپ کی طرف غیر قانونی امیگریشن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی تھی، مگر اب یہ تعداد ایک بار پھر بڑھ رہی ہے۔اب کورونا ہجرت کے بحران کا ایک اہم عنصر بن سکتا ہے۔
’انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے‘
کورونا وبا کے آغاز کے ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار اور تجزیوں سے اس امر کی نشاندہی ہو ئی ہے کہ کورونا وبا سے متعلق پابندیوں نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے خلاف جنگ میں سرحدی کنٹرول، سفری پابندیاں اور دیگر اقدامات یورپ کی طرف ہجرت میں تیزی سے کمی کا سبب بنے۔ یورپی یونین کے کمیشن کے مطابق، ''یورپی یونین نے 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں پناہ کی درخواستوں میں مجموعی طور پر 33 فیصد کی کمی ریکارڈ کی۔اس کے علاوہ سرحد عبور کرنے کے واقعات 2013ء کے برابر رہے۔مہاجرین کے لیے امیر یورپی ممالک تک پہنچنے کا نیا راستہ
ہجرت یا پناہ کی تلاش کے واقعات میں کمی کیسے؟
یورپی یونین کمیشن کی طرف سے لگائے گئے اندازوں سے پتا چلا کہ اکثر کیسز میں پناہ کے متلاشی افراد پورپی یونین میں اپنی درخواستیں جمع ہی نہیں کروا پائے۔
کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے پناہ کے متلاشیوں کو اکثر عارضی طور پر حفظان صحت کے ابتر حالات میں حراست میں رکھا گیا۔ مثال کے طور پر یونانی جزیرے لیسبوس کے کیمپوں میں یا جن ممالک کی سرحدوں میں وہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے وہاں انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔
یہ حالات و واقعات نہ صرف یورپ میں امیگریشن کے عمل میں واضح کمی کی وجہ بنے بلکہ اس تمام صورتحال نے یورپ کی طرف مہاجرین کے بہاؤ کے دھارے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ سب سے اہم امر یہ کہ یونان میں سرحدی بندش نے مشرقی بحیرہ روم کو تارکین وطن کے لیے کم پُر کشش بنادیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پناہ کے متلاشی افراد کا راستہ وسطی بحیرہ روم کی طرف منتقل ہو گیا۔
مہاجرت کے رستے بدل گئے
یورپی یونین بارڈر گارڈ ایجنسی کے تازہ اندازوں کے مطابق تارکین وطن یا پناہ کے متلاشی افراد کے لیے اب یورپ کی سرحدی گزرگاہوں کی تصویر ہی بدل چُکی ہے۔
کینیڈا، ’ایک افغان مہاجر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘
فرونٹکس کے مطابق یورپی یونین میں غیر قانونی نقل مکانی پچھلے سال کے مقابلے میں جنوری سے اگست 2021ء تک 64 فیصد تک بڑھ گئی اور اس کے لیے مغربی بلقان کے راستے کو استعمال کیا گیا۔ یعنی زیادہ تر نقل مکانی کے لیے ترکی کے راستے بلقان ممالک جیسے کے البانیہ، سربیا اور شمالی مقدونیہ سے گزر کر وسطی بحیرہ روم پہنچنے کی کوشش کی گئی۔ ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2020ء کے مقابلے میں اس روٹ کو اختیار کرنے والے پناہ کے متلاشیوں کی تعداد 2021ء میں دوگنا رہی۔ فرونٹیکس کے تجزیے کے مطابق رواں برس یورپ کی طرف نقل مکانی اور پناہ کی تلاش کے کاموں کا ایک طرح سے نیا آغاز ہوا ہے۔
سونیا انگیلیکا ڈیہن (ک م/ اب ا)