یورپی انرجی یونین قائم کی جائے، پولستانی وزیر اعظم
22 اپریل 2014پولستانی وزیر اعظم نے اس بارے میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ توانائی کے لیے یورپی یونین کا روس پر موجودہ انحصار یورپ کو کمزور بنا رہا ہے۔ یورپی یونین کے رکن 28 ملک ہر سال جتنا تیل اور گیس درآمد کرتے ہیں، اس کا ایک تہائی حصہ روس سے خریدا جاتا ہے۔
لیکن روس نے مارچ کے مہینے میں عالمی برادری کو اس وقت حیران کر دیا جب اس نے یوکرائن کے نیم خود مختار جزیرہ نما کریمیا میں پہلے فوجی مداخلت کی اور پھر وہاں کرائے گئے ایک متنازعہ ریفرنڈم کو بنیاد بنا کر اس خطے کو اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا۔
اس پر امریکا اور یورپی یونین نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی سیاسی حلقوں پر پابندیاں لگا دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اگر ماسکو نے یوکرائن کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دینے کا عمل جاری رکھا تو روسی معیشت کے اہم شعبوں کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مشرقی یوکرائن کے اکثریتی طور پر روسی نسل کی آبادی والے علاقوں میں مسلح روس نواز باغی ابھی تک کئی شہروں میں بہت سی سرکاری عمارات پر قابض ہیں اور یہ بحران بہت جلد حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
اس پس منظر میں مشرقی یورپی ملک پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹُسک نے فنانشل ٹائمز میں اپنے مضمون میں لکھا، ’’اس بات سے قطع نظر کہ یوکرائن میں بحرانی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، موجودہ صورت حال سے سیکھا جانے والا ایک سبق واضح ہے: روس سے درآمد کردہ توانائی کے ذرائع پر بہت زیادہ انحصار یورپ کو کمزور بنا رہا ہے۔‘‘
پولستانی وزیر اعظم نے یورپی یونین کی طرف سے توانائی کے شعبے میں بھی ایک یونین کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اس خطے میں صرف ایک نگران عہدیدار کی سربراہی میں بینکنگ یونین قائم کی جا رہی ہے، اسی طرح برسلز کو جلد از جلد ایک انرجی یونین بھی قائم کرنی چاہیے۔
ڈونلڈ ٹُسک نے لکھا کہ یورپی یونین کے رکن ملک پہلے ہی اپنے ایٹمی بجلی گھروں کے لیے مل کر روس سے یورینیم خریدتے ہیں۔ ان کے بقول روسی تیل اور گیس کی درآمد کے لیے بھی یہی طریقہء کار اپنایا جا سکتا ہے۔
ان کی رائے میں یورپی یونین کو اپنا ایک ایسا مرکزی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو اس بلاک کی رکن تمام ریاستوں کے لیے درآمدی گیس خریدے۔ مستقبل کے اس ممکنہ اقدام کو یورپی انرجی یونین کا نام دیتے ہوئے ٹُسک نے کہا کہ اس وقت یونین کے رکن کم از کم 10 ملک ایسے ہیں جو اپنے ہاں استعمال ہونے والی گیس کے 50 فیصد سے بھی زیادہ حصے کے لیے صرف ایک سپلائی کمپنی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ توانائی کمپنی روس کا سرکاری انتظام میں کام کرنے والا بہت بڑا ادارہ ’گیس پروم‘ ہے۔
پولینڈ کے سربراہ حکومت نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ یورپ کو انرجی یونین قائم کرتے ہوئے گیس کے غیر یورپی برآمد کنندگان کے ساتھ بھی معاہدے کرنے چاہییں، مثلاﹰ امریکا اور آسٹریلیا کی کمپنیوں کے ساتھ مائع گیس کی درآمد کے معاہدے۔
2012ء میں یورپی یونین کے توانائی کی درآمدات پر مجموعی انحصار کی شرح قریب 66 فیصد تھی۔ دو سال قبل تک یونین میں شامل ریاستوں میں استعمال کی جانے والی گیس میں روسی درآمدات کا حصہ 30 فیصد تھا جبکہ ان 28 ملکوں میں استعمال ہونے والے تیل کا بھی قریب 35 فیصد حصہ روس ہی سے درآمد کیا جاتا تھا۔