یورپی سرحدوں کے کنٹرول کی ضرورت ہے، جرمن وزیر خارجہ
26 دسمبر 2015جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ شامی باشندوں کے متعدد جعلی پاسپورٹ انتہا پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ اس صورتحال میں کوئی جنگجو بھی مہاجر یا تارک وطن کے بھیس میں یورپ میں داخل ہو سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے البتہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ مہاجرین کو مشتبہ دہشت گرد تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ یورپ میں ہونے والے حالیہ حملوں کے تناظر میں انہوں نے خبردار کیا کہ زیادہ تر جنگجوؤں کو تعلق یورپ سے ہی تھا۔
فرانک والٹر شٹائن مائر نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ صورتحال جو کچھ بھی ہے لیکن سرحدوں کی نگرانی کو سخت بنانا چاہیے، ’’یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ یورپ داخل ہونے والوں اور جانے والوں کے بارے میں متعلقہ حکام کو مفصل معلومات ہوں۔‘‘
شٹائن مائر نے یورپی کمیشن کی اُس تجویز کو بھی قابل عمل قرار دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کی بارڈر سکیورٹی فورس فرونٹیکس کو زیادہ اختیارات حاصل ہونا چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے ترکی کے ساتھ شراکت داری بھی اہم ثابت ہو گی۔
یہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے شورش زدہ علاقوں سے فرار ہونے والے مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ یورپ پہنچ جائیں، تاکہ وہ پرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں۔
ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی کوشش ہے کہ انہیں جرمنی میں پناہ مل جائے۔ رواں برس جرمنی پہنچنے والے ایسے افراد کی تعداد ایک ملین سے زیادہ ہو چکی ہے۔
گزشتہ ماہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ایسے خدشات شدید ہو گئے ہیں کہ جہادی بھی مہاجرین کے بھیس میں یورپ پہنچ سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ تیرہ نومبر کو پیرس میں ہوئے حملوں کی ذمہ داری عراق و شام میں فعال انتہا پسند گروہ داعش نے قبول کر لی تھی۔
جرمن میڈیا نے جرمن صوبے باویریا کے وزیر داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کچھ ایسے مہاجرین جرمنی پہنچ کر غائب ہو چکے ہیں، جن کے پاس شام کے جعلی پاسپورٹ تھے، اس لیے ایسے خدشات اور شکوک پیدا ہوئے ہیں کہ ان کے مبینہ طور پر داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ رابطے ہو سکتے ہیں۔
صوبے باویریا کے وزیر داخلہ نے اس صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ حکام کو چوکنا رہتے ہوئے عمل کرنا ہو گا۔