یورپی ممالک غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف تعاون پر تیار
7 ستمبر 2010فرانس کے وزیر برائے امیگریشن ایرک بیسن کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے درمیان ایسے افراد کے معاملات کے لئے تیزترین طریقہ کار اپنانے پر اتفاق ہوا ہے، جن کی پناہ یا امیگریشن کی درخواستیں ردّ ہو چکی ہوں۔ انہوں نے کہا، ’بے قاعدہ امیگریشن کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہمیں تعاون کے ایک نئے مرحلے میں شامل ہونا ہو گا۔‘
ایرک بیسن پیرس میں غیرقانونی تارکین وطن کے موضوع پر یورپی ممالک اور کینیڈا کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ خیال رہے کہ اسی موضوع پر آئندہ ہفتے برسلز میں بھی یورپی یونین کا ایک وزارتی اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔
ایرک بیسن کے ساتھ اٹلی کے وزیر داخلہ رابرٹو مارونی اور ان کے کینیڈین ہم منصب جیسن کینی سمیت یونان، برطانیہ، جرمنی اور بیلجیئم کے جونیئر وزراء بھی نیوز کانفرنس میں شریک تھے۔
فرانس نے حال ہی میں روما (خانہ بدوش) شہریوں کو بڑی تعداد میں ملک بدر کیا ہے، جس پر اسے اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
دوسری جانب اٹلی کے وزیر داخلہ مارونی کی ناردرن لیگ بھی تارکین وطن کی مخالف پارٹی ہے اور اس نے روما شہریوں کی ملک بدری کے فرانسیسی اقدام کو سراہتے ہوئے اسے نمونے کے طور پر اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
بیسن کا کہنا ہے کہ روما شہری رقوم کی بدلے رضاکارانہ طور پر فرانس چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حوالے سے پیرس حکومت نقل وحرکت کے لئے مقرر یورپی یونین کے قوانین کے مطابق عمل کر رہی ہے۔
اطالوی وزیر داخلہ کا کہنا ہے، ’اس حوالے سے قانون سازی کے لئے اگلا قدم مشترک یورپی نظام کا قیام ہوگا تاکہ تمام رکن ممالک میں غیرقانونی تارکین وطن کے لئے ایک جیسے قوانین رائج ہوں۔‘
پیرس کے اجلاس میں شریک یونان کے نمائندے Spyros Vougias نے کہا کہ یورپ آنے والے 82 فیصد غیرقانونی تارکین وطن ان کے ملک کے راستے خطے میں داخل ہوتے ہیں، اور ایتھنز حکومت یہ بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتی۔ کینیڈا کے وزیر کینی نے یورپی نمائندوں کے ساتھ اس اجلاس کو مفید قرار دیا۔
خیال رہے کہ پیرس کے اس اجلاس میں شریک سات ممالک کو 2009ء کے دوران پناہ کے لئے ایک لاکھ 83 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں، جو صنعتی ممالک کو موصول ہونے والی اس نوعیت کی درخواستوں کا نصف ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف