یورپی یونین کا شینگن معاہدہ: کامیابی کا پندرہ سالہ سفر
1 اپریل 2010یورپی یونین نے اپنے رکن ملکوں کی داخلی سرحدوں پر نگرانی کا عمل ختم کرنے کا کام پندرہ سال پہلے شروع کیا تھا، جب شینگن کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا تھا۔ پندرہ برس گزر جانے کے بعد یورپی یونین کے شینگن زون میں شامل ملکوں کی تعداد پچیس ہوچکی ہے، جہاں عام شہریوں کو آزادانہ آمدورفت کی مکمل اجازت ہے۔
ان پندرہ برسوں کے دوران یورپ مرحلہ وار ایک ایسے عمل سے گذرا جس کے بعد وہ داخلی سرحدوں سے تقریبا پاک براعظم بن چکا ہے۔ 1995 میں 26 مارچ کے روز شینگن کا جو معاہدہ اپنی ابتدائی حالت میں نافذ العمل ہوا تھا، اس پر یونین کے رکن پانچ وسطی یورپی ملکوں نے دستخط کئے تھے۔ یہ ملک بیلجیئم، جرمنی، فرانس، لکسمبرگ اور ہالینڈ تھے۔
آج شینگن کے معاہدے میں یونین کے پانچ کے سوا سبھی رکن ملک شامل ہو چکے ہیں۔ آزاد سرحدی معاہدے میں اپنی شمولیت کے خلاف فیصلہ کرنے والے دو ملک برطانیہ اور آئرلینڈ ہیں۔ اس کے علاوہ یونین کے نئے رکن ملکوں میں سے جن ریاستوں کو ابھی تک اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا، وہ رومانیہ، بلغاریہ اور قبرص ہیں۔ 27 رکنی یورپی یونین کے باقی ماندہ بائیس ملک شینگن معاہدے میں شامل ہیں۔
لیکن یورپی یونین کے اس آزاد سرحدی معاہدے میں اب تک چند ایسی یورپی ریاستیں بھی شامل ہو چکی ہیں، جو یونین کی رکن نہیں ہیں۔ ان ملکوں میں ناروے، آئس لینڈ اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ سوئٹزرلینڈ وسطی یورپ کا ایک ایسا ملک ہے، جو چاروں طرف سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں گھرا ہوا ہے مگر خود یونین میں شامل نہیں ہے۔ سوئٹزرلینڈ شینگن کے معاہدے میں شامل ہونے والا اب تک کا آخری ملک ہے، جس نے شینگن زون میں 2008 کے آخر میں شمولیت اختیار کی تھی۔
یورپی یونین کے ہالینڈ میں شینگن کے مقام پر طے پانے والے اس آزاد سرحدی معاہدے سے پہلے مختلف یورپی ملکوں کے مابین سفر کرنے والے مسافروں کی باقاعدہ سرحدی نگرانی کی جاتی تھی، اور انہیں اپنی سفری دستاویزات کی چیکنگ بھی کرانا پڑتی تھی۔ لیکن اس معاہدے کے نفاذ کے بعد سے رکن ملکوں کے درمیان سفر کرنے والے مسافروں کی سرحدی نگرانی ختم ہو چکی ہے۔ شینگن ریاستوں میں ہوائی اڈوں، ریلوے سٹیشنوں اور بڑی شاہراہوں پر پولیس کی طرف سے چیکنگ کے اکا دکا واقعات کے علاوہ اس خطے میں بارڈر کنٹرول اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔
جرمنی کے خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کے انسٹیٹیوٹ کی ایک خاتون ماہر Daniela Kietz کے بقول یہ سفری سہولت شینگن کے معاہدے کا واحد مثبت پہلو نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ عام طور پر جس قابل تعریف پیش رفت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ شینگن کا معاہدہ اور اس کے اثرات یورپی انضمام کے عمل کے لئے ایک ایسا انجن ثابت ہوئے، جو کئی دیگر شعبوں میں بھی یورپی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا سبب بنا۔
دانیئلہ کیٹس نے ابھی حال ہی میں شینگن معاہدے کے پندرہ برس پورے ہونے کے موقع پر ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا: ’’یورپی یونین کے رکن ملکوں میں داخلی سرحدوں کی نگرانی کے خاتمے کا عمل ہی اس پیش رفت کی وجہ بنا کہ تارکین وطن اور سیاسی پناہ گزینوں سے متعلقہ امور کے علاوہ مختلف ملکوں کے پولیس کے محکموں کے مابین تعاون بھی انتہائی ضروری ہوگیا۔ مثال کے طور پر اس معاہدے کے نفاذکے بعد شینگن زون کی ریاستیں اپنے ہاں تارکین وطن یا سیاسی پناہ گزینوں کی آمد کو خود کنٹرول نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لئے یورپی یونین کی سطح پر ایسی پالیسی کی تشکیل لازمی ہو گئی، جس میں تارکین وطن سے متعلق تمام امور کا مرکزی سطح پر احاطہ کیا گیا ہو۔‘‘
شینگن کے معاہدے نے ایک طرف اگر یورپی انضمام کے عمل کو آگے بڑھانے میں بڑی مدد دی تو دوسری طرف اسی سمجھوتے کی وجہ سے یونین میں مہاجرت اور ترک وطن سے متعلقہ معاملات بہت پیچیدہ بھی ہوگئے۔ سلامتی کی سیاست اور خارجہ امور کے جرمن ادارے کی خاتون ماہر Kietz کہتی ہیں: ’’جرمنی اور شینگن زون کی دیگر ریاستوں کو اب عملا کوئی کنٹرول حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اس بات پر دھیان دے سکیں کہ ان ملکوں میں قانونی یا غیر قانونی طور پر کون داخل ہو رہا ہے۔ ایسے غیر ملکی، جو غیر قانونی طور پر شینگن زون میں داخل ہوتے ہیں، بڑی آزادی سے کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ یورپی یونین میں داخلے کے بعد زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن ایسی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں معیار زندگی سب سے بہتر ہے اور جہاں ان کے لئے سیاسی پناہ حاصل کر سکنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ یونین کے رکن چند ملکوں کو باقی ریاستوں کے مقابلے میں تارکین وطن کے باعث کہیں زیادہ بوجھ کا سامنا ہے۔‘‘
یورپی کمیشن کے داخلہ امور کے شعبے کے ترجمان میشیل سیرکون نے اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شینگن معاہدے پر درست عمل درآمد یورپی یونین کی داخلہ امور سے متعلق سیاست میں ہمیشہ ہی اہم ترین اہداف میں شامل رہا ہے۔ میشیل سیرکون کے بقول شینگن کے معاہدے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شہریوں کی پورے شینگن زون میں آزادانہ نقل و حرکت کو اس طرح یقینی بنایا جائے کہ ایسا کرتے ہوئے شخصی آزادیوں کو یونین کی بیرونی سرحدوں پر مناسب حد تک سلامتی انتظامات کی ضرورت سے ہم آہنگ بھی رکھا جائے۔
میشیل سیرکون کہتے ہیں: ’’اس سلسلے میں بڑے چیلنج تو شروع ہی سے موجود تھے۔ لیکن آج پندرہ برس گزر جانے کے بعد یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ شینگن کا معاہدہ واضح حد تک کامیابی کا داستان ثابت ہوا ہے۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق