یونان کا اقتصادی بحران: جرمنی اور فرانس کا جلد حل کے لیے دباؤ
10 جنوری 2012دونوں ملکوں نے ایتھنز حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے جلد از جلد معاہدہ کر لے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے یہ بات پیر کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک ملاقات کے بعد کہی۔
دونوں رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ یورپی اور آئی ایم ایف کے نئے قرضوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے سے وابستہ بونڈ ہولڈر بھی یونان کے قرضوں کا بوجھ اٹھائیں۔
میرکل اور سارکوزی نے یورپین سینٹرل بینک کے پالیسی سازوں کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ نجی شعبے پر قرضوں کا بوجھ ڈالنے کا منصوبہ ترک کر دیا جائے۔
جرمن چانسلر نے فرانسیسی صدر کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’یونان کے قرضے کو رضاکارانہ طور پر ازسرنو ترتیب دینے کے حوالے سے پیش رفت ناگزیر ہے، جسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری رائے میں، یونان کے لیے آئندہ امدادی پیکج اور قرضے کا یہ نیا ڈھانچہ جلد سے جلد طے پا جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یونان کو اگلی قسط کی ادائیگی ممکن نہیں ہو گی۔‘‘
اُدھر روئٹرز کے مطابق ایتھنز حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ قرضوں کے تبادلے پر نجی بونڈ ہولڈرز کے ساتھ بات چیت آگے بڑھ رہی ہے، لیکن ابھی تک کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔
میرکل اور سارکوزی نے فنانشل ٹرانزیکشنز پر ٹیکس کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کا عندیہ بھی دیا۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وہ اس ٹیکس کو نافذ کیے جانے کے وقت پر سمجھوتہ کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ برطانیہ اس منصوبے کے خلاف ہے۔
میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے ستائیس رکن ملکوں کے وزرائے خزانہ مارچ میں اس حوالے سے رپورٹ پیش کریں اور دوسرے ملک یورپی یونین کے فیصلے کے راستے میں بدستور رکاوٹ بنیں تو پھر یورو زون کے ارکان آگے بڑھیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس معاملے پر ان کی اپنی اتحادی حکومت میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔
سارکوزی نے کہا کہ فرانس اس حوالے سے تنہا ہی آگے بڑھ سکتا ہے، انہوں نے دوسرے ملکوں پر اپنی پیروی کے لیے زور دیا۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: حماد کیانی