یونان کا ممکنہ دیوالیہ پن اور یورپی بینکوں پر امکانی اثرات
26 ستمبر 2011بین الاقوامی بینک یونان کی مالی صورت حال دیکھتے ہوئے اس کے ممکنہ دیوالیہ پن کا احساس کرنے لگے ہیں۔ کئی بینک محسوس کرتے ہیں کہ یونانی اقتصادیات کی بحالی کا حل اس وقت اس کے دیوالیہ پن میں موجود ہے اور ایسے ہونے کے بعد ہی حکومتی قرضے کے بوجھ کے خاتمے کے لیے ایسی نئی شرائط کا تعین کیا جا سکے گا جو قدرے آسان ہوسکتی ہیں۔
بین الاقوامی بینکوں کو احساس ہے کہ یونان کے دیوالیہ پن کے امکانی اثرات اسی انداز کے ہوں گے جو امریکہ کے لیہمن برادرز بینک کے دیوالیہ ہونے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔
دوسری طرف یوینان کی حکومت کے 340 ارب یورو کے بڑے قرضے کے حجم کے بوجھ تلے ملکی اقتصادی حرکت تھمتی دکھائی دے رہی ہے اور اب یورو زون کے قرضوں کی فروخت سے ایک اور بحران پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے یورپی بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے محفوظ سرمائے کا حجم وسیع کریں اور یورپی اقوام کے لیڈران بھی ہنگامی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لیے تیار رہیں۔
جرمن بینکوں کی ایسو سی ایشن BdB کےصدر اندریاس شمٹس نے مجموعی صورت حال کو بہت افسوس ناک قرار دیتے کہا کہ ایک علیحدہ اکائی کے طور پر یونان کا دیوالیہ پن مناسب انداز میں سنبھالا جا سکتا ہے۔ شمٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اس لپیٹ میں دوسرے یورپی ملک بھی آ گئے تو صورت حال میں بہت بڑی اور پریشان کن تبدیلی پیدا ہو جائے گی ۔ اس سے یورپ اور اس کے باہر بہت سارے بینک اپنی ساکھ کے ساتھ کاروبار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی بینکوں کو اپنے محفوظ سرمائے کے حجم کو وسیع کرنے میں دشواریوں کا سامنا بھی ہے۔ بعض بینکوں کے اہلکاروں کا خیال ہے کہ بینکوں کو بھی ریاستی یا یورپی مدد کی ضرورت ہے اور اس باعث ہی وہ پیش بندیوں کے ساتھ ساتھ حفاظتی فائر وال کھڑی کر سکیں گے۔
ادھر یورپ کی سب سے بڑی اقتصادیات جرمنی کو بھی یورپی ملکوں کے قرضے کے بحران کا سامنا ہے۔ اس باعث بار بار مالی منڈیوں میں پیدا ہونے والی مندی نے کاروباری حضرات کا اعتماد مجروح کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی میں عام خریدار کی بھی مجموعی صورت حال سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے اندر بھی خریدنے کا عمل قدرے سست ہونے سے کاروباری سرگرمیاں بھی موسم سرما کی آمد کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق یورو زون کے ملکوں میں اقتصادی سرگرمیاں انتہائی سست ہونے کی وجہ سے اگلے مہینوں میں جرمن معاشیات کی سالانہ پیداوار بھی سست روی کا شکار ہو جائے گی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عدنان اسحاق