یونانی سرحدی محافظوں سے ایک مشتبہ پاکستانی تارک وطن ہلاک
9 مئی 2020رواں برس مارچ کے آغاز میں ترکی اور یونان کی مشترکہ سرحد پر ہزاروں مہاجرین یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش جاری رکھے ہوئے تھے۔ یونانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پناہ کے متلاشی افراد کو طاقت کے زور پر یونانی سرحدوں میں داخلے سے روکنے کی کوششوں کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی تھیں۔ اس دوران ترک حکام نے بتایا تھا کہ یونانی سرحدی محافظوں نے ایک شخص کو ہلاک اور بعض تارکین وطن افراد کو زخمی کردیا ہے۔
مزید پڑھیے:یونان اور ترکی کی مشترکہ سرحدوں پر مہاجروں کی کسمپرسی
تاہم یونانی حکام کی جانب سے اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یونانی حکومت کے ترجمان اسٹیلیو پیٹساس نے ایک تحریری بیان میں کہا، ’’ترکی کے لیے نا درست اطلاعات کی مہم چلانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘ ڈی پی اے کی اطلاعات کے مطابق یونانی سرحد کے محافظوں نے تارکین وطن کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا تھا۔
لیکن، ایتھنز حکومت کے بیان کے برعکس جمعہ آٹھ مئی کو جرمن جریدے ’ڈئیر اشپیگل‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ یونانی سکیورٹی فورسز نے زور دار فائرنگ کی تھی۔
مزید پڑھیے:ہزارہا تارکین وطن کی شدید سردی میں ترک یونانی سرحد پر شب بسری
ترکی اور یونانی اطراف میں موجود ’ڈئیر اشپیگل‘ کے رپورٹرز کی اطلاعات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی تشدد کی تفتیش کرنے والی تنظیم ’فرانزک آرکیٹیکچر‘، بلا منافع کام کرنے والی میڈیا کی تنظیم ’لائٹ ہاؤس رپورٹس‘، اور فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ ’بیلنگ کیٹ‘ کی تحقیقاتی ٹیموں کی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ محمد گلزار نامی ایک پاکستانی شہری کو سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران گولی لگی تھی۔
ان تحقیقاتی ٹیموں نے دو درجن کے قریب عینی شاہدین، تارکین وطن، بارڈر گارڈز، سیاستدانوں اور ڈاکٹروں سے انٹرویو کرنے کے ساتھ ساتھ محمد گلزار کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، ایک سو زائد تصاویر اور ویڈیوز، اور دیگر سرکاری دستاویزات کا بغور جائزہ لیا تھا۔
’ڈئیر اشپیگل‘ کے مطابق مذکورہ شواہد یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ گلزار نے چار مارچ کو سرحد پر یونانی فوجیوں کا سامنا کیا تھا اور وہ یونانی فوجیوں کی شدید فائرنگ کا نشانہ بنا تھا۔
ع آ / ع ح (ڈیئر اشپیگل، ڈی پی اے)